نئی دہلی: 15دسمبر کی شب،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں اتر پردیش پولیس اور مظاہرین کے مابین پر تشدد تصادم سے متعلق ایک حقائق تلاش کرنے والی رپورٹ میں،یو پی پولیس پر”اے ایم یو میں بلا اشتعال تشدد“ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
کاروان محبت اورانڈین کلچرل فورم کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ ”دی سیز آف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی“ میں طلباء کو کلین چٹ دے دی ہے،کیونکہ تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں طلباء سے تشدد کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
طلباء نے تصدیق کی کہ تشدد کو اکسانے کے لئے ان سے کوئی اشتعال انگیزی نہیں ہوئی تھی۔اساتذہ بھی اس سے متفق ہیں۔ حقائق کی تلاش کرنے والی ٹیم کی رہنمائی کرنے والے کارکن ہرش مانڈر نے کہا ’،ہاں،ہم نے پولیس سے بات نہیں کی،ہمیں موقع پر جو کچھ نظر آیا اس پر ہم نے یقین کر لیا۔
مانڈر نے مزید کہا،،اس کے علاوہ ہماری پریشانی طلباء کی طرف سے تشدد کی نہیں تھی،ہم اس پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے تھے کہ،طلباء پر پولیس فورس کا غیر معقول استعمال کیا گیا“۔اس رپورٹ میں یونیورسٹی انتظامیہ،ضلعی حکام اور پولیس کو اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
طلباء اور اساتذہ نے انکشاف کیا کہ یونیورسٹی انتطامیہ،ضلعی اتھاریٹی اور ریاستی حکومت،یو پی پولیس کی جانب سے ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف کیمپس اور رہائشیوں کی حفاظت کے لئے اپنے فرائض میں ناکام رہیں۔رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک پی ایچ ڈی کے طالب علم کا دستی بم کی وجہ سے ہاتھ کو نقصان پہنچا تھا۔
طالب علم کے ہاتھ میں لاشعوری میں دستی بم کی موجودگی کا جواز پیش کرتے ہوئے مانڈر نے کہا کہ ”اس کا خیال تھا کہ یہ آنسو گیس کا دستی بم ہے اور پانی میں پھینکنے پر اس کا اثر ختم ہو جائے گا،لہذا وہ اسے پھینکنے کی کو شش کر رہا تھا“۔اس رپورٹ میں یہ بھی الزام لگا یا گیا ہے کہ سیکیوریٹی فورسز نے مظاہرین اور نظر بند طلباء پر تشدد کو بڑھاوا دیا۔