Monday, June 9, 2025
Homeبیناتsportsبابرکریرکے ابتدائی 4 برسوں کے ریکارڈز میں کوہلی سے آگے

بابرکریرکے ابتدائی 4 برسوں کے ریکارڈز میں کوہلی سے آگے

- Advertisement -
- Advertisement -

دبئی ۔  ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی نیوزی لینڈ کے خلاف کامیابی میں اہم کردار ادا کرنے والے بابر اعظم کا سوشل میڈیا پر ہندوستانی ٹیم کے کپتان ویراٹ کوہلی سے موازنہ کیا جارہا ہے اور نئی بحث جاری ہے جس میں دنوں کھلاڑیوں کے ابتدائی 4 برسوں کی کارکردگی کا موازنہ کیا جارہا ہے ۔ دونوں کھلاڑیوں کے کرکٹ کے ابتدئی 4 سال کا ریکارڈ دیکھا جائے تو کوہلی نے اپنے کرکٹ کیرئیر کے ابتدائی ان 4 سال میں 74 اننگز کھیلتے ہوئے 2860 رنز اسکور کئے جن میں 8 سنچریاں شامل ہیں۔ اس دوران کوہلی کی47.62 رنز فی اننگز کی اوسط رہی جبکہ 85.56کا اسٹرائیک ریٹ رہا۔

 اس کے برعکس پاکستانی ٹیم کے بابر اعظم نے اپنے کرکٹ کیرئیرکے ابتدائی 4 سال میں 68 اننگز کھیلتے ہوئے 3072 رنز بنائے جس میں 10سنچریاں شامل ہیں۔ بابراعظم کی 52.97 رنز فی اننگز کی اوسط رہی جبکہ 85.88 کا اسٹرائیک ریٹ رہا۔ ونڈے میں ایک ہزار، پھر دو ہزار اور اب تین ہزار رنز کا سنگ میل عبور کرتے ہوئے بابر اعظم کوہلی سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ واضح رہے کوہلی نے تین ہزار رنز مکمل کرنے کے لیے زیادہ اننگز کھیلیں جبکہ بابراعظم نے ان سے کم اننگز میں یہ سنگ میل عبور کیا۔

تیسرے نمبر پر آکر بابراعظم اورویراٹ کوہلی کا کھیلنے کا انداز ایک جیسا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی ٹیم کے بیٹنگ کوچ گرانٹ فلور نے کہا ہے کہ بابر اعظم رواں ورلڈ کپ میں کوہلی سے زیادہ اچھی بیٹنگ کررہے ہیں۔ بابر اعظم نے بھی کوہلی کو اپنا آئیڈیل قراردیا ہے۔ ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ کوہلی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے وہ ایک بڑے کھلاڑی ہیں، ان کی ویڈیوز دیکھ کر اپنے کھیل کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔

پاکستانی ٹیم کے سابق کھلاڑی محمد یوسف نے بھی بابر اعظم کو عالمی معیار کا بیٹسمین قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ پیغام میں لکھا ہے کہ میں ذاتی طور پر یہ سوچتا ہوں کہ بابر اعظم کوہلی سے زیادہ بہتر کھلاڑی ہیں یا دنیائے کرکٹ کے دیگر بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں ۔ نیوزی لینڈ کے مقابلے سے ایک دن قبل ہی پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم نے بابر پر اپنی ناراضگی جتاتے ہوئے کہا تھا کہ بابر کو اننگز اور مقابلے کےسے ختم کرنا ہے وہ سیکھنا ہوگا جس کے دوسرے ہی دن بابر نے اپنی اننگز کو نصف سنچری سے ناقابل تسخیر سنچری میں تبدیل کرنے کے علاوہ مقابلے کا نتیجہ پاکستان کے حق میں ہونے تک وکٹ پر ڈٹے رہے۔