نئی دہلی ۔ تاریخی بابری مسجد کا مقدمہ تو ختم ہوگیا لیکن اب مسجد کے بعد اس کا ملبہ موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ 27 برس قبل 6 ڈسبمر 1992ءکو ہندو شدت پسندوں نے مغل بادشاہ بابر کے ایک جنرل میر باقی کی تعمیر کردہ تقریبا ساڑھے چار سو برس قدیم تاریخی بابری مسجد کو دن دہاڑے شہید کر دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس مسجد کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک طویل عدالتی جد و جہد کی تاہم 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے اس پر اپنا فیصلہ سنایا اور بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیر قانونی بتا کر بھی اراضی کی ملکیت ا ±سی ہندو فریق کو سونپ دی، جو مسجد کی مسماری کی ذمہ دار تھا۔
مسلم فریق نے اس فیصلے پر نظر ثانی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جسے سماعت کے بغیر ہی عدالت نے مسترد کر دیا۔ اب رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہونے والا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کا ملبہ یا مسجد کی باقیات پر کس کا حق ہے اور اسے کس کے حوالے کیا جائے؟
بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے اس معاملے پر 25 دسمبر کو ایک اجلاس طلب کیا تھا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس پر مسلمانوں کو اپنا دعوی پیش کرنا چاہیے۔ کمیٹی کے رکن اور مسجد کے وکیل ظفر یاب جیلانی نے کہا ہے کہ بابری مسجد کے ملبے کو ادھر ادھر نہیں پھینکا جا سکتا اور انہوں نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں ہمارا ایک اجلاس ہوا تھا اور علماءسے مشورہ کیا گیا۔ مسجد کی باقیات کو ادھر ادھر نہیں رکھا جا سکتا۔ اس سے مسلمانوں کو ٹھیس پہنچے گی۔ چونکہ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں کوئی ہدایت نہیں دی، اس لیے ہم اس کے لیے ایک عرضی داخل کریں گے۔ بابری مسجد کا ملبہ عزت و احترام کے ساتھ حاصل کیا جائےگا۔
مسلم پرسنل بورڈ کے سرکردہ رکن اور ترجمان قاسم رسول الیاس نے کہا ہے کہ مسجد کے ملبے پر مسلمانوں کا حق ہے اور یہ طے کرنے کے بعد کہ مناسب جگہ ہائی کورٹ میں یا پھر سپریم کورٹ، درخواست دائر کی جائے گی۔ چونکہ عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد کا انہدام قابل سزا جرم تھا لہذا زمین نہیں ملی تو ملبہ تو ہم کو ملنا چاہیے۔ ملبہ ہمارا ہے اور ہم اسے حاصل کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ابھی یہ طے نہیں کیا گیا ہے کہ اس ملبے کا کیا کیا جائے گا تاہم اس سے بہت سے کام لیے جا سکتے ہیں،ملبے سے بابری مسجد کی یاد میں ایک اورمسجد تعمیر کی جا سکتی ہے۔ اس کو بطور یادگار استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہماری نسلوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری مسجد جبراً ہم سے چھین لی گئی تھی۔
آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سیکریٹری جو اس مقدمے کے ایک اہم فریق تھے انہوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بابری مسجد کی عمارت مسلمانوں کی تھی، اس حیثیت سے اس کے ملبے پر انہی کا حق ہے۔ انہوں نے کہا اسے ملبہ نہیں بلکہ مسجد کی باقیات کہنا بہتر ہو گا۔ اس پر مسلمانوں کا حق ہے اور ہم اسے حاصل کریں گے۔ اس کا کیا کریں گے یہ تو بعد کی بات ہے۔
ہندو فریق کی جانب سے مسجد کے ملبے کے تعلق سے اب تک کوئی مخالف بیان سامنے نہیں آیا ہے تاہم مسجد کی جگہ سے متصل ہی ایک اکھاڑے کے مہنت ترلوکی ناتھ پانڈے نے اس معاملے میں مسلمانوں کی حمایت کی ہے۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چونکہ ملبہ مسلمانوں کا ہے، اس لیے وہ اس کے حق دار ہیں اور اسے انہیں دینے سے بھائی چارے میں اضافہ ہو گا۔
بابری مسجد ہندوستان کی شمالی ریاست اترپردیش کے ضلع فیض آباد کے ایودھیا میںہے جو نوابوں کے شہر لکھنو ¿ کے پاس ہی واقع ہے ۔ ہندوستان میں بابری مسجد ہی کی طرح سینکڑوں ایسی تاریخی مساجد ہیں، جن پر ہندو تنظیموں کا دعوی ہے۔ کہیں ایسی مساجد بند کر دی گئی ہیں تو کسی پر مقدمہ چل رہا ہے۔