وقف بورڈ میں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس جیسا ہی معاملہ ہے ۔ وقف بورڈ کے عہدیداروں کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ وہ معصوموں اور سادہ لوح لوگوں کو ہراساں کرتے ہیں اور سیاسی پشت پناہی اور دولت کی فراوانی رکھنے والوں کے آگے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ شہر کے قلب چراغ علی لین میں واقع ایک قیمتی اوقافی جائیداد’’ بنڈی بالیا کمپاؤنڈ‘‘ کی بابت وقف بورڈ نے بورڈ سے تصادم کا راستہ اختیار کرنے والوں سے مفاہمت کرلی اور پھر قانون وقف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس قیمتی جائیداد کے متولی تسلیم کرلئے جانے والے شخص کی ہر بات مان لی ۔ تفصیلات کے مطابق مذکورہ جائیداد کے متولی محمد شرف الدین خان اور اے پی اسٹیٹ وقف بورڈ کے درمیان تنازعہ چلتا رہاہے اسی اثناء متولی کا انتقال ہوگیا جس پر ان کے ورثاء فخر النساء بیگم ‘ محمد شجاع الدین خان متحارب رہے ۔ آخر کیا مجبوری تھی معلوم نہیں کہ وقف بورڈ نے متولی کے قانونی ورثاء سے سمجھوتہ کرلیا اور انہیں مرحوم متولی کے نام پر ایک ٹرسٹ ’’ شرف الدین خان چیارٹیبل اینڈ ریلیجس ٹرسٹ ‘‘ تشکیل دینے کا مشورہ دیا اور محمد شجاع الدین خان کو موروثی متولی تسلیم کرلیا ۔ قانون وقف کے مطابق تولیت موروثی نہیں ہوسکتی ۔ ایک وقت تھا کہ وقف بورڈ 1979 ء سے 1998 ء تک متولی کے خلاف قانونی کارروائی کرتا رہا اور ان کے ادعا کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا مگر جب ان دونوں میں مفاہمت ہوگئی تو ان میں ایسایارانہ ہوگیا کہ ایک دوسرے کو ہر ایک کی خامی میں بھی خوبی نظر آنے لگی اور پھر وقف بورڈ نے تسلیم شدہ موروثی متولی کی ہر خواہش پر اپنی مہر توثیق ثبت کرنے لگا جس کا فائدہ اٹھاکر متولی نے مذکورہ اوقافی جائیداد کو فروغ دینے کی تجویز وقف بورڈ کو پیش کی ۔ موروثی متولی نے وقف بورڈ کو مطلع کیا کہ وہ اپنی ذاتی رقم سے جائیداد پر ایک کمرشیل کامپلیکس تمعیر کریں گے اور متوقع کرایہ داروں سے ڈیولپمنٹ لاگت وصول کریں گے ۔ انہو ں نے یہ وعدہ کیا کہ اندرون تین برس تعمیر مکمل کرلیں گے ۔ وقف بورڈ سے انہوں نے کامپلیکس کو لیز پر دینے کی اجازت طلب کی اور یہ بتایاکہ تعمیری لاگت کی پابجائی کرنے کے بعد امکانی کرایہ داروں سے وصول کی جانے والی پگڑی سے انہیں 30 لاکھ روپے اور ماہانہ 40,000 روپے کی رقم بطور کرایہ حاصل ہوگی جسے کسی قومیائے ہوئے بینک میں سی ای او وقف بورڈ اور متولی کے نام پر کھولے جانے والے مشترکہ اکاؤنٹ میں جمع کروایا جائے گا اور اس رقم اور کرایوں کی وصولی سے حاصل رقم پر ملنے والی سود کی رقم وقف فنڈ منہا کرنے کے بعد غریبوں اور ضرورتمند مسلمانوں پر خرچ کریں گے ۔ اس تجویز کے موصول ہونے کے بعد وقف بورڈ نے اجلاس میں ایک قرار داد میں انہیں مذکورہ جائیداد کو فروغ دینے کی مشروط اجازت دے دی ۔ بعدازاں موروثی متولی نے /25 اکتوبر 2004 ء کو راج کمار مالپانی ولد جگدیش پرساد مالپانی کے ساتھ لیز معاہدہ کیا۔ اس معاہدہ اور جائیداد کو فروغ دینے کے لئے موروثی متولی کی جانب سے وقف بورڈ کو پیش کردہ تجویز اور وقف بورڈ کی جانب سے دی گئی این او سی کی شرائط میں زبردست تضاد پایا جاتاہے ۔ مالپانی نے آندھرا پردیش اسٹیٹ فینانشیل کارپوریشن سے 50 لاکھ روپے کا قرض مذکورہ تعمیرات کو رہن رکھ کر حاصل کیا ۔ فینانشیل کارپوریشن اور مالپانی کے درمیان طئے پائے معاہدہ پر موروثی متولی نے بھی دستخط کرتے ہوئے فینانشیل کارپوریشن کی شرائط کی تعمیل کرنے کی ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قانون وقف کے مطابق کسی بھی اوقافی جائیداد کو لیز پر دیا جاتاہے تو وقف بورڈ تین برس سے زائد اور متولی ؍ انتظامی کمیٹی 11 ماہ سے زائد مدت کے لئے معاہدہ نہیں کرسکتی ۔ مگر موروثی متولی نے مالپانی کے ساتھ جو معاہدہ کیاہے اس کے مطابق تین سال لیز کی مدت کے ختم ہونے کے بعد لیز کی رقم میں سالانہ 2 فیصد اضافہ کیا جائے گا جس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ مالپانی کے ساتھ کیا گیا لیز معاہدہ تین برس بعد ختم نہیں ہوگا بلکہ یہ لا محدود مدت کے لئے برقرار رہے گا اور لیز کی رقم میں صرف 2 فیصد سالانہ اضافہ کیا جاسکتاہے ۔ یہی نہیں بلکہ وقف بورڈ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ ریاستی حکومت سے پیشگی اجازت کے بغیر کسی بھی اوقافی جائیداد کو رہن نہیں سکتا مگر موروثی متولی نے اپنے لیز ہولڈر کو فینانشیل کارپوریشن کے پاس تعمیرات؍ مشنری کو رہن رکھا اور فینانشیل کارپوریشن کو موروثی متولی نے یہ اجازت دی کہ مقروض مالپانی کی جانب سے قرض کی رقم ادا نہ کئے جانے کی صورت میں مشنری وغیرہ ضبط کرلے۔ موروثی متولی نے مالپانی کو مذکورہ جائیداد سب لیز پر دینے کی بھی اجازت دے دی ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ اس وقت بورڈ کے ایک بااثر عہدیدار نے شخصی دلچسپی لیتے ہوئے وقف بورڈ کو موروثی متولی کے آگے جھکنے پر مجبور کیا ۔ اس معاملت کو طئے کرنے میں خطیررقم کا تبادلہ ہوا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ یہ تمام امور سابقہ بورڈس میں طئے پائے مگر موجودہ بورڈ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایسے خلاف قانون کارروائیوں کو کالعدم کرنے کی پہل کرے جس کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک جنبش قلم کافی ہے ۔
- Advertisement -
- Advertisement -