Monday, June 9, 2025
Homeدیگرمفاد عامہبھارت خواتین کے لیے خطر ناک ترین ملک

بھارت خواتین کے لیے خطر ناک ترین ملک

افغانستان، شام، صومالیہ اور سعودی عربیہ بالترتیب دوسرے ، تیسرے اور چوتھے مقام پر ہیں۔ہندستان میں 2012 تا 2016خواتین کے خلاف جرائم کے مقدمات بشمول عصمت ریزی، ایسیڈ حملہ، جہیز ہراسانی اموات میں تقریباً 40 فیصد اضافہ ۔خواتین کے لئے اب ہندستان دنیا کا بدترین مقام بن گیا ہے۔

- Advertisement -
- Advertisement -

خواتین کے لئے اب ہندستان دنیا کا بدترین مقام بن گیا ہے۔جنسی تشدد، اذکار رفتہ ثقافتی روایات اور لڑکیوں کی اسمگلنگ کے باعث ہندستان دنیا کا خطرناک ترین ملک بن گیا ہے۔خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور جبری مشقت کے واقعات کی وجہ سے بھارت کو سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔عالمی ماہرین کی رائے پر مشتمل تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے سروے میں جنسی تشدد، ہراسانی، ذہنی اور گھریلو تشدد سمیت خواتین کو درپیش مختلف قسم کے خطرات پر سوالات کیے گئے۔سروے فہرست کے مطابق خواتین سے زیادتی ، جنسی ہراسانی اور تشدد میں بھارت نمبر ون قرار پایا ہے جبکہ افغانستان کا دوسرا، شام تیسرا، صومالیہ چوتھا اور پاکستان چھٹے ہے جبکہ مغربی ممالک میں امریکہ واحد ملک ہے جو10سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ واضح رہے کہ دس سرفہرست ملکوں میں شامل امریکہ واحد مغربی ملک ہے۔ماہرین کا کہناہیکہ فہرست میں پہلا نمبر ظاہر کرتا ہے کہ بھارت میں خواتین کے تحفظ کیلیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جارہے۔ماہرین نے مزید کہا کہ اس سروے کی ضرورت می ٹو مہم کے بعد محسوس کی گئی، می ٹو مہم میں دنیا بھر سے ہزاروں خواتین اپنے ساتھ پیش آئے جنسی ہراسانی کے واقعات منظر عام پر لائیں۔ایسی ہی نوعیت کا 2011 میں کئے گئے سروے میں ہندستان کا مقام افغانستان ، کانگو اور پاکستان کے بعد چوتھا تھا۔ تازہ سروے میں پہلے مقام پر ہندستان پہنچ گیا ہے اور افغانستان، شام، صومالیہ اور سعودی عربیہ بالترتیب دوسرے ، تیسرے اور چوتھے مقام پر ہیں۔
تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن نے 26 مارچ تا 4 مئی کے دوران دنیا بھر کے548 ماہرین سے کہا گیا تھا کہ وہ درجہ بندی میں طبی نگہدادشت، ثقافتی روایات، امتیازات، جنسی تشدد، غیر جنسی تشدداور انسانوں کی اسمگلنگ کے پیمانہ جات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی آراء پیش کریں۔130 کروڑ شہریوں کے ساتھ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک نے خواتین کے ساتھ جنسی تشددو ہراسانی،خواتین کو ثقافتی ، قبائیلی اور روایاتی طریقۂ کاروں سے لاحق خطرات اور ملک جہاں خواتین زیادہ تر انسانی استحصال بشمول جبری بندھوا مزدوری، جنسی غلامی اور گھریلو محکومی کے تین سوالات میں پہلا مقام پایا ہے۔یہ نتائج صرف ایک تکلیف دہ حقیقت کی توثیق کرتے ہیں۔ نئی دہلی میں 2012 میں ایک نوجوان لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی کے واقعہ نے ہندستان میں خواتین کی سلامتی کے تعلق سے کئے جانے والے احتجاج کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا تاہم قوانین کو بہتر بنانے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے خواتین کے لئے شروع کردہ اسکیمات جیسے بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤکو روشناس کروانے کے باوجود قدامت پسنداور پدرانہ ملک میں خواتین اور لڑکیوں کوسخت مظالم کا سامنا ہے۔ 2012 تا 2016خواتین کے خلاف جرائم کے مقدمات بشمول عصمت ریزی، ایسیڈ حملہ، جہیز ہراسانی اموات میں تقریباً 40 فیصد اضافہ کے ساتھ 3,38,954تک پہنچ گئے۔حتیٰ کہ یہ تعداد اصل واقعات سے بہت ہی کم ہیں چونکہ عصمت ریزی اور جنسی ہراسانی کے لئے پولیس، وکلاء، اور ڈاکٹرس سے رجوع ہونے پر بھی ظلم کا شکار بنائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے پر ہونے والے مظالم کی شکایت کرنے سے بھی گھبراتی ہیں۔ ہندستان میں انسانی اسمگلنگ بھی ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے جہاں 2016 میں ایسے 15,000 کیسس درج کئے گئے ہیں جن میں دوتہائی خواتین ہیں ۔ سیکس ورک یا گھریلو ملازمہ کے طور پر بیچے جانے والی خواتین میں بیشتر 18 برس سے بھی کم عمر کی ہیں۔