حیدرآباد: بھوج ریڈی انجینئرنگ کالج برائے خواتین کی مسلمہ حیثیت اس تعلیمی سال سے منسوخ کردی گئی تھی کیونکہ انھوں نے 2014 میں ایک تعلیمی اسوسی ایشن کے خلاف ریاستی شکایت کے بعد آل انڈیا کونسل برائے ٹیکنیکل ایجوکیشن ( اے آئی سی ٹی ای) کو جعلی دستاویزات جمع کروائیں تھیں۔ سنتوش کمار ریاست تلنگانہ کے تکنیکی کالجوں کے ملازمین اسوسی ایشن (ٹی ایس ٹی سی ای اے) کے صدر جنہوں نے کالج کی دستاویز حصص کی حیثیت جاننے کے لئے آر ٹی آئی دائر کی تھی۔ حکومت نے 2012 میں ایک جی اوجاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ تمام کالجوں کے پاس کالج شروع کرنے کے لئے ایک مستقل قبضہ کا سرٹیفکیٹ ہونا چاہئے تاہم بھوج ریڈی انجینئرنگ کالج برائے خواتین نے اس ضمن میں دستاویزات جعلی بنائیں۔ جس کا مطلب ہے کہ انہوں نے مسلمہ حیثیت کے لئے آئی اے ایس افسران کے دستخط جعلی بنائے۔
جب جی ٹی ایم سی سے اس کے بارے میں آر ٹی آئی میں پوچھا تو جواب ملا کہ مذکورہ فائل نمبر کی تصدیق دفتر کے ریکارڈ اور سسٹم میں ہوچکی ہے ، لیکن اس کا پتہ نہیں چل سکا ہے اور بھوج ریڈی انجینئرنگ کالج برائے خواتین کے نام پر کوئی عمارت فائل دستیاب نہیں ہے۔ تاہم میرا سوال یہ ہے کہ اے آئی سی ٹی ای نے اس کالج سے پانچ تعلیمی سال تک مسلمہ حثییت کیسے رکھی؟ تاہم کالج کا مسلمہ حثییت کا حامل ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ سنتوش نے مزید کہا ہے کہ جب ہم نے جے این ٹی یو ایچ اور اے آئی سی ٹی ای سے یہی سوالات پوچھے تو ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔ مجھے مدد کے لئے پی ایم او کو لکھنا پڑا جس کے بعد اے آئی سی ٹی ای کو کالج کی مسلمہ حیثیت منسوخ کرنا پڑی۔ تفتیش کے بعد اے آئی سی ٹی ای نے سنتوش کو آگاہ کیا ہے کہ کم از کم 100 مزید کالج ہیں جو ریاست میں بغیر کسی پیشہ وارسند کے انسٹی ٹیوٹ چلا رہے ہیں۔