Sunday, June 8, 2025
Homeٹرینڈنگبہت  دیر کی مہرباں آتے آتے

بہت  دیر کی مہرباں آتے آتے

ٹائمز میگزین نے مودی کو پہچاننے میں بہت دیر کردی

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد  ۔ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے متعلق عالمی سطح پر مشہور ٹائمز میگزین کے حالیہ شمارے میں مضمون کے متعلق خبریں پڑھ کر سب سے پہلے تو ہمارے ذہن میں اردو  کے ضرب المثل اشعار کے دومقبول ترین مصرعے ذہن میں ابھرنے لگے جس میں پہلا مصرعہ تو داغ دہلوی کا ہے،

     ؎  بہت  دیر کی مہرباں آتے آتے   (داغ دہلوی )

تو دوسرا مصرعہ

؎   بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے   (حیدرعلی آتش)

 قابل ذکر ہیں کیونکہ ٹائمز میگزین کا نریندر مودی کے متعلق حالیہ مضمون ان دو مصرعوں کے اردگرد گھومتا کیونکہ یہی وہ میگزین ہے جس نے گزشتہ چند برسوں کے دوران اپنے عالمی شماروں میں نریندرمودی کی مداح سرائی  کی تھی اور اب تازہ ترین شمارہ میں مودی کو ہندوستان کو تقسیم کرنے والا وزیراعظم قرار دیا ہے حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ۔روز اول سے ہی ہندوستان کے سیکولر اور جمہوریت پسند عوام کو اس بات کا خدشہ تھا کہ اگر آر ایس ایس  کی سیاسی جماعت بی جے پی اقتدار میں آتی ہے اور نریندر مودی وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں یقیناً ہندوستان قوم ، مذہب اور تہذیب کی بنیاد پر تقسیم ہو جائے گا لیکن ٹائم میگزین کو یہ سمجھنے کے لئے نریندر مودی کے پانچ سالہ دور اقتدار کا عملی نمونہ دیکھنا پڑا ۔ت

ازہ ترین شمارہ کے متعلق جو دوسرا مصرعہ کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے نے ثابت کردیا ہے کہ ٹائمز میگزین جو کہ ماضی میں نریندر مودی کی مداح سرائی میں مصروف رہا اسے اب اس حقیقت کا بھی اندازہ ہوا کہ نریندر مودی ہندوستانی جمہوریت اور سیکولرزم کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں اگر کسی کو اس حقیقت پر کوئی شک ہے تو وہ ہندوستان میں رواں پارلیمانی انتخابات کے دوران نریندر مودی کی جانب سے کی جانے والی تقریروں کا ریکارڈ یوٹیوب پر اٹھا کر دیکھ لیں یا پھر حالیہ دنوں میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں منعقدہ اسمبلی انتخابات میں اپنے نظریے اور بی جے پی کے امیدوار کے لیے کی جانے والی انتخابی مہم میں مودی کی تقاریر کے الفاظ واضح کردیتے ہیں کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اس نظریے پر کمربستہ  ہیں جو ہندوستان کو تقسیم کرنے کا خواہاں ہے ۔

نریندرمودی کی تقاریر کے اہم نکات کے تجزیاتی مطالعے  کے بعد ویسے تو ہندوستان کو تقسیم کرنے والے ان کے نظریات کے لیے بیسوں مثالیں مل جاتی ہیں لیکن یہاں مضمون کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کے لیے صرف ایک مثال ہی کافی ہے جب اپوزیشن جماعت کانگریس کے صدر راہول گاندھی نہیں جنوبی ہندوستان سے بھی انتخابات لڑنے کے لیے ریاست کیرلا کے حلقے  ویاناڈ سے پرچہ نامزدگی داخل کی تھی تو ان کی مخالفت میں نریندرمودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران تقریر میں کہا تھا کہ راہول گاندھی نے ویاناڈ کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ یہاں اکثریتی طبقہ کے ووٹرز اقلیت میں ہیں جبکہ اقلیتی طبقہ جن میں مسلمان اور عیسائی کی تعداد زیادہ ہے لہذا راہول گاندھی کو یہاں سے کامیابی کی امید زیادہ ہے ۔

مودی کے اس بیان کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہندوؤں کو مسلمانوں اور عیسائیوں سے الگ کرتے ہوئے خود کی اہمیت کو ترجیح دینے پر اکساتے ہیں تو دوسری جانب مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوسرے درجے کے شہری قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اترپردیش کے اسمبلی انتخابات کےدوران بھی انہوں نے قبرستان اور شمشان ، رمضان اور دیوالی جیسے موضوعات کا سہارا لیا تھا جو یقینا ہندوستانی سماج اور قوم کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کے سوا کچھ اورنہیں ۔نریندر مودی کے گزشتہ دس برسوں کی تقاریر کا تجزیہ بھی کیا جائے تو اس میں بھرمار ایسے جملے بازیوں کی ہے جس میں ہندوستان کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اب رہی بات ٹائمز میگزین کی جس نے ماضی میں کئی مرتبہ نریندر مودی کو عالمی سطح کا ایک طاقتور سیاسی رہنما بتانے کی کوشش کی تھی۔ٹائمز میگزین کے 20 مئی 2019 کے شمارے میں نریندر مودی کو انڈیاز ڈیوائیڈر انچیف قرار دیا ہے۔ مضمون نگار آتش تاثیر نے اپنے اس مضمون میں نریندر مودی کو ہندوستان کے ٹکڑے کرنے والا وزیراعظم قرار دیا ہے لیکن ہندوستانی سیکولر عوام تو پہلے سے ہی اس حقیقت سے واقف ہے ۔ آتش تاثیر دراصل ہندوستانی خاتون صحافی تو لین سنگھ اور پاکستان کے سیاستدانوں وتاجر مرحوم سلمان تاثر کے بیٹے ہیں ،انہوں نے اپنے مضمون میں نریندر مودی کو ملک کا ٹکڑے کرنے والا وزیراعظم قرار دیا ہے اور میگزین نے اپنے کاورپیج پر مودی کی تصویر شائع کی ہے ۔

ٹائمز میگزین کے گزشتہ شماروں کا تذکرہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ میگزین نے 2014 ،2015 اور 2017 میں نریندر مودی کو 100 بااثر شخصیتوں میں شمار کیا تھا ان سب میں 2015 کے شمارے کا عنوان اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس وقت ٹائمز میگزین نے آپ کاور پیچ (صفحہ اول) پر عنوان دیا تھا  ‘‘وائی مودی میٹرس ’’ ، یعنی ہندوستان کےلئے مودی کیوں ضروری ہے ؟ لیکن آج میگزین کو خود پتہ چل گیا ہے کہ مودی ہندوستان کے لیے کیوں موذی ہیں؟

نریندر مودی کے گزشتہ پانچ سالہ دور اقتدار میں ہندوستان کی اقلیتوں نے جو سنگین حالات اور ظلم وستم کا سامنا کیا وہ تو ساری دنیا پر عیاں ہے لیکن ٹائمز میگزین کے لئے بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ داغ دہلوی نے جو غزل لکھی تھی اس کا مصرعہ آج اس ٹائم میگزین کے مضمون کی ترجمانی کرتا ہے کہ

؎     بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔۔۔۔۔