نئی دہلی ۔ دہلی فسادات سے متعلق کانگریس کی ایک ٹیم نے آج تفصیلی رپورٹ پارٹی صدر سونیا گاندھی کے سامنے پیش کر دی۔ 28 فروری کو سونیا گاندھی نے کانگریس کے سینئر لیڈروں مکل واسنک، شکتی سنگھ گوہل، طارق انور،کماری شیلجا اور سشمتا دیوکو یہ ذمہ داری دی تھی کہ وہ تشدد سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں اور متاثرین سے بات چیت کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ آخر دہلی میں ماحول خراب کرنے کے پیچھے کن عناصرکا ہاتھ تھا۔ رپورٹ میں اس ٹیم نے پرتشدد واقعات کے لیے بی جے پی کے سرکردہ لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات کو سب سے زیادہ ذمہ دار ٹھہرایا اورکہا کہ مرکزکی مودی حکومت اور ریاست کی کیجریوال حکومت دونوں ہی اس بات کے لیے ذمہ داری ہیں کہ انہوں نے تشدد کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔
کانگریس نے اس تعلق سے آج ایک پریس کانفرنس کی جس میں شکتی سنگھ گوہل نے واضح الفاظ میں کہا کہ بی جے پی جہاں جہاں تشددکرواتی ہے، اس کا طریقہ کار یکساں ہوتا ہے۔ ہم نے دہلی میں بھی ایسا ہی دیکھا۔ باہر سے کچھ لوگ افواہ پھیلانے کے لیے آتے ہیں۔ اس کے بعد اکسانے کے لیے کوئی باہرسے لیڈرآتا ہے۔ جب فساد ہوتا ہے تو اس وقت وہ غائب ہو جاتا ہے۔ شروع میں پولیس کو کہا جاتا ہے نو ایکشن اور پھر حالات بگڑ جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اس دواخانہ میں گیا جہاں زخمی پولیس والا زیر علاج تھا۔ میں پولےس والے کے افراد خاندان سے بھی ملا۔ انھوں نے کہا کہ پہلے دن ہم لوگوں کو ہاتھ پاوں میں بیڑیاں باندھ کر بھیجا گیا تھا۔ یعنی کہا گیا تھا کہ نو لاٹھی، نو ایکشن، نو گولی، نتھنگ(کچھ نہیں)۔ گویا کہ پہلے دن فساد بھڑکے اس کے لیے پوری چھوٹ دی جائے۔ یہ طریقہ کار وہی ہے جو بی جے پی ہمیشہ کرواتی رہی ہے۔ اس کے بعد پچاس میں سے اس خاص (طبقہ کے) دکانات کی شناخت کر کے جلادیا جاتا ہے۔
شکتی سنگھ گوہل نے پریس کانفرنس میں کہا کہ تشدد والے علاقہ کا دورہ کرنے کے بعد ہمیں یہ صاف پتہ چلا کہ دہلی والے لڑنا نہیں چاہتے تھے، بی جے پی کی ووٹ بینک کی سازش نے انھیں آپس میں لڑوایا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے بارے میں شہریت ترمیمی قانون کے حامی لوگوں نے بھی یہی بتایا کہ وہ پرامن مظاہرہ کر رہے تھے اور اگر انھیں اکسایا نہیں جاتا تو فساد نہیں ہوتا۔ شکتی سنگھ نے کہا کہ یہاں ہندو۔ مسلم سبھی آپس میں پیار محبت سے رہ رہے تھے۔ بی جے پی اور عآپ، دونوں نے ووٹ بینک سیاست کر کے عوام کو نقصان پہنچایا۔ مودی اور امیت شاہ جیسے لیڈروں نے بھی ایسا بیان دیا جو نفرت بڑھانے کا کام کرتا رہا۔ پھر ایک سوچی سمجھی سازش دیکھنے کو ملی۔
انھوں نے مزید کہا کہ تشدد والے علاقہ میں ہم گئے تو لوگوں نے کہا کہ تین چار لوگوں نے کہا کہ ایک گروپ آ رہا ہے، آپ اکٹھے ہو جائیے ورنہ آپ کے گھر میں گھسیں گے۔ سب اکٹھے ہوگئے۔ بابر پور میں درگا واہنی کی لیڈر نے پتھر بازی کروائی۔ دو مسلم بھائی اور ایک ہندو بھائی کی جان چلی گئی۔ اسی طرح کا واقعہ دوسری جگہوں پر بھی ہوا۔ یہ سب ایک سازش کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ دہلی کے لوگوں کے درمیان یہ زہر گھولنے کا کام بی جے پی اور ان کے حامیوں نے کروایاہے، اور ساتھ ہی عام آدمی پارٹی بھی ذمہ دار ہے، انھوں نے بھی تشدد کے واقعات کو نظر اندازکیا۔ اگر صحیح معنوں میں کسی بھی ایک حکومت (مرکزی یا ریاستی) کی جانب سے تشدد روکنے کی کوشش ہوتی تو حالات خراب نہیں ہوتے۔