نئی دہلی: حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جمعرات کے روز اس وقت ہنگامہ ک کر دیا،جب پارٹی کے ترجمان سودیش ورما نے سبریمالا پرسپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ ادا کی جانے والی ایک اسلامی دعا ”اذان“ کا معاملہ اٹھایا۔
ورما نے کہا کہ ”حکومت کو لوگوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے“۔انہوں نے میڈیا نمائندوں سے کہا کہ ”آپ کو معلوم ہے،مسجد سے صبح کی نماز یا میکس کی ڈیسیبل لیول آواز کے مختلف حکم ہیں۔انہوں نے کہا ”اگر چہ اذان میں ڈیسیبل سطح پر قواعد لاگو نہیں ہو سکتے ہیں،تو خواتین کو سبریمالا میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ نے مندروں،مسجدوں اور دیگر مذہبی مقامات پر خواتین کے داخلے کے معاملے کو سات ججوں پر مشتمل لارجر بنچ کے سپرد کر دیا۔جس میں جسٹس رنجن گوگوئی،جسٹس روہنگٹن پھلی نریمن،جسٹس اے ایم کھانولکر،جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس اندو ملہوترا شامل ہیں۔اس دوران بنچ نے کہا کہ سبریمالا مندر میں ہر عمر کی خواتین کے داخلے کے سلسلے میں پہلے دئے گئے فیصلے کو لارجر بینچ کا آخری فیصلہ آنے تک بر قرار رکھا گیا ہے۔
اگر چہ ورما نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا،لیکن انہوں نے نام لئے بغیر جامع مسجد کے شاہی امام پر نشانہ سادھا۔ ورما،امام بخاری کا نام لئے بغیر 2001میں سرکاری ملازمین پر حملہ اور سرکاری املاک کونقصان پہنچانے کے الزامات کا حوالہ دے رہے تھے۔بی جے پی نے سبریمالا کے بارے میں مستقل طور پرکہا ہے کہ روایت اور عقیدے کا احترام کیا جانا چاہئے اور انہیں عدالتی دائرے سے دور رہنا چاہئے۔لیکن ورما اذان اور امام بخاری کا حوالہ دیتے ہوئے معاملے کو فرقہ وارانہ موڑ دینے کی کوشش کی۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی کا ملک کا سب سے قدیم معاملہ کا فیصلہ پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے کیا تھا،جبکہ سبریمالا مندر کے فیصلہ کے لئے،اس معاملہ کوسات ججوں پر مشتمل لارجر بینچ کے سپرد کیا گیا ہے۔بابری مسجد رام جنم بھومی کے برسوں پرانے معاملے کافیصلہ تیس منٹوں میں کیا گیا،اب دیکھنا یہ ہے کہ سبریمالا سے متعلق اس معاملہ کا فیصلہ کتنے وقت میں کیا جاتا ہے۔