حیدرآباد۔ ہندوستان اس وقت جس بے چینی کے ماحول سے گزررہا ہے وہ سب پر عیاں ہے ، ہندوستان کے اندر ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی نظریں ہندوستان کے داخلی حالات پر ٹکی ہوئی ہیں کیونکہ بی جے پی حکومت نے کالے قانون شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کرنے کے علاوہ عوام کے سخت احتجاج کے باوجود اس پر عمل آوری کےلئے بضد ہے ۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعات کے طلبہ نے جو احتجاج شروع کیا ہے وہ بتدریج ہندوستان کی آواز بن چکا ہے اور آئے دن احتجاج کرنے والے طبقوں اور جماعتوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور اب آثار یہ بھی دیکھائی دے رہے ہیں خود بی جے پی میں اس کالے قانون کی وجہ سے بغاوت ہورہی ہے۔
شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کی وجہ سے بی جے پی کے اندر بھی ایک ہنگامہ برپا ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں جب مدھیہ پردیش بی جے پی اقلیتی سیل کے تقریباً چار درجن اراکین نے اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے پارٹی استعفیٰ دے دیا تھا اور اب میڈیا ذرائع میں آ رہی خبروں کے مطابق 80 سے زائد بی جے پی لیڈروں نے پارٹی کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ جن لیڈروں نے بی جے پی کو خیر باد کہہ دیا انہوں نے کہا ہے کہ اب بی جے پی سب کی پارٹی نہیں رہی، اس لیے جڑے رہنا ممکن نہیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ مدھیہ پردیش بی جے پی اقلیتی سیل میں شہریت قانون کی وجہ سے ایک ہنگامی حالت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس قانون کی وجہ سے اقلیتی سیل کے لیڈران میں ایک بے چینی بہت پہلے سے دیکھنے کو مل رہی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 22 جنوری کو اندور، مہو، دیواس اور کھرگون وغیرہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی اقلیتی سیل کے درجنوں عہدیداروں نے استعفیٰ دے دیا۔ بی جے پی کو الوداع کہنے والے ان لیڈران و کارکنان نے کہا ہے کہ اس ملک میں ہندو مسلم مسئلے کا خاتمہ ہونا چاہیے، لیکن ایک کے بعد ایک مسئلہ سامنے آتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے معیشت اور روزگار جیسے مسائل اور موضوعات پیچھے چھوٹتے چلے جا رہے ہیں۔
بی جے پی چھوڑنے والے لیڈران نے میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ موجودہ ماحول میں ملک میں تفریق ہر طرف دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کشمیر سے دفعہ 370 ہٹایا گیا تو ہم لوگوں نے کہا کہ اچھا ہوا، ہم اس کے حق میں تھے کہ اب کشمیر میں ہم بھی جا کر رہ سکتے ہیں۔ تین طلاق ختم ہوا تب بھی ہم نے کوئی ہندو مسلم نہیںکیا اور اس فیصلے کا استقبال کیا۔ بابری مسجد کے فیصلے میں بھی مانا کہ مندر کے ساتھ مسجد کو بھی جگہ دی جا رہی ہے لیکن سوال یہی ہے کہ اس ملک میں ہندو مسلم کب تک چلے گا۔ اس موضوع پر ایک مسئلہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا کھڑا ہو جاتا ہے۔ روزانہ نئے نئے موضوعات سامنے لا ئے جاتے ہیں۔
بی جے پی اقلیتی سیل سے استعفیٰ دینے والے عہدیداروں نے اس وقت ملک کی معاشی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس وقت ہندو مسلم تفریق پیدا کرنے کی جگہ ملک کی معیشت بہترکرنے اور روزگار پیدا کرنے کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔ اس وقت ملک کی ترقی کی بات ہونی چاہیے۔ ناراض مستعفی لیڈروں نے بی جے پی میں بڑے عہدوں پر فائز لیڈروں کے طریقہ کار پر بھی مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم شہریت قانون کی مخالفت کرتے ہیں اور مجوزہ این آر سی کے ساتھ ہی این پی آر کی بھی مخالفت کریں گے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بی جے پی میں بغاوت ہوئی ہو کیونکہ اس سے قبل 11 جنوری کو بھوپال بی جے پی اقلیتی سیل کے 48 اراکین نے شہریت قانون کے خلاف بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا۔ جن 48 اراکین نے پارٹی سے استعفیٰ دیا تھا ان میں اقلیتی سیل کے نائب صدر عادل خان بھی شامل تھے۔ انھوں نے شہریت ترمیمی قانون اور مجوزہ این آر سی کی مخالفت میں 11 جنوری کو استعفیٰ دیا اور پھر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے میڈیا سے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی کسی ایسی حکومت کو دیکھا ہے جس نے پارلیمنٹ میں قانون منظور کرنے کے بعد اس کے لیے گھر گھر جا کر حمایت مانگی؟“ پارٹی چھوڑنے والے اراکین نے بی جے پی ریاستی اقلیتی سیل کے صدر کو اپنا استعفیٰ نامہ سونپتے ہوئے لکھا ہے کہ پارٹی شیاما پرساد مکھرجی اور اٹل بہاری واجپائی کے اصولوں پر عمل کرتی ہے، لیکن انھوں نے کسی کے ساتھ تفریق نہیں کیا اور اقلیتوں سمیت سبھی کو اپنے ساتھ لے کر چلے تھے۔
پارٹی چھوڑنے والے لیڈروں نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ پارٹی میںکوئی جمہوریت باقی نہیں رہی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پوری پارٹی دو سے تین لوگوں کے بھروسے چھوڑ دی گئی ہے جو نقصان دہ ثابت ہوگی۔ حالانکہ بی جے پی نے ان الزامات کی تردید کی اور کانگریس و کمیونسٹ پارٹیوں پر انھیں گمراہ کرنے کا الزام عائد کیا۔ بی جے پی لیڈر گوپال بھارگو نے 48 بی جے پی کارکنان کے استعفیٰ کے تعلق سے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے کارکنان کو گمراہ کیا گیا ہے جو اس مسئلے کو ٹھیک سے نہیں سمجھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر بی جے پی اپنے کارکنان کو ہی شہریت قانون سے متعلق صحیح چیز سمجھانے میں ناکام ہو رہی ہے تو پھر آخر وہ گھر گھر جا کر عام لوگوں کو کیسے سمجھا پائےں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ بی جے پی کے پاس شہریت قانون کے متعلق پوچھے جا رہے سوال کا جواب ہی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی لیڈران و کارکنان دانشور طبقہ سے اس سلسلے میں بحث و مباحثہ سے پرہیزکر رہے ہیں۔