ایتھنز۔ اس وقت ترک کی ایک خاتون صحافی کی داستان خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے جوکہ ترکی سے راہ فرار اختیارکرتے ہوئےیونان تو پہنچ گئی ہیں لیکن وہ اب یہاں سے کسی اور یورپی ملک جانے کی خواہاں ہے۔ترکی کے جنوب مشرقی شہرشانلے عورفا سے تعلق رکھنے والی کرد خاتون صحافی روزرین اوروجو نے ایتھنز میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی داستان بیان کیں ۔ اوروجو کچھ عرصہ پہلے ترکی سے فرار ہو کر یونانی دارالحکومت پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں۔
اوروجو نے کہا ہے کہ ترکی میں صحافیوں کی صورت حال خراب ہے۔ وہاں ہر خبر کے شائع کرنے کے ساتھ ہی ہمیں ترک سیکورٹی حکام کے احکامات پر گرفتاری کا یا پھر اپنے ادارے کی بندش کا خوف درپیش ہوتا تھا۔ترکی کی حکومت کرد صحافی اوروجو پردہشت گرد جماعت میں شمولیت اور اس جماعت کے مفاد میں پروپیگنڈے کا الزام عائد کرتی ہے۔
شانلے عورفا میں ترک عدالت کی جانب سے اوروجو کے خلاف 6 سال 3 ماہ اور 22 دن قید کی سزا سنائی گئی۔اوروجو نے واضح کیا کہ اس نے عدالتی سماعتوں کے دوران اپنا دفاع کیا اور بتایا کہ وہ ایک صحافی ہے جس نے کبھی ہتھیار نہیں رکھا تاہم عدالت نے اس کے باوجود کرد خاتون صحافی کے خلاف فیصلہ جاری کیا۔
اوروجو کے وکیل نے اپیل کی درخواست دائر کی تاہم اس کے باوجود اوروجو کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا۔اوروجو نے کہا کہ استنبول شہر میں اس کے خلاف ایک اور مقدمہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ مقدمہ سوشل میڈیا پر ان کی سرگرمیوں سے متعلق ہے تاہم ابھی تک اس کا فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
اوروجو نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ ترکی کی حکومت جن جرائم پر میرا احتساب کرنا چاہتی ہے ان میں یہ بھی ہے کہ میں نے ٹویٹر پر کردستان کے پرچم کی تصویر کو پسند کیوں کیا ؟کرد خاتون صحافی کا موقف ہے کہ وہ کچھ عرصہ قبل ترکی سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئیں کیوں کہ وہ بنا کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہیں لیکن عزت نفس کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتیں۔یاد رہے کہ کئی برسوں سے صحافت میں کام کرنے والی اوجور غیر قانونی طریقے سے انتہائی مشقت آمیز سفر کے بعد یونانی اراضی پہنچیں۔
اروجو نے کہا کہ سمندر کے راستے یونان میں داخل ہونے سے پہلے انہیں 6 گھنٹوں تک پیدل چلنا پڑا۔ یونان میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ 3 گھنٹوں تک پیدل چلتی رہیں۔ اس کے بعد انہوں نے خود کو مقامی پولیس کے حوالے کر دیا۔ اوروجو کئی دن تک محروس رہیں اور پھر جب پولیس نے تصدیق کر لی کہ وہ صحافی ہیں اور سیاسی وجوہات کی بنا پر ترکی سے فرار ہوئی ہیں تو انہیں رہا کر دیا گیا۔اوروجو کہ وہ ایتھنز پہنچ تو گئیں لیکن یہاں ان کے دن مشکل سے گزر رہے ہیں۔ لہذا اب وہ کسی دوسرے یورپی ملک پہنچنے کے لیے کوشاں ہیں