حیدرآباد ۔رواں ہفتہ ایندھن کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافے کے بعد تلنگانہ کے عوام زائد بوجھ محسوس کرنا شروع کردیا ہے اور نقل و حمل کی لاگت اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر زبردست اثر پڑ رہا ہے۔ پیر کے روز نظرثانی کے بعد پچھلے ایک ہفتے میں مسلسل ساتویں مرتبہ اضافہ کے بعد پٹرول کی قیمت تقریبا100 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے اور باورچی گیس سلنڈر کی قیمت میں 50 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب تلنگانہ کی ریاستی حکومت فنڈ کے بحران کی وجہ سے مالی بحران کا شکار بھی ہوچکی ہے ۔ رواں مالی سال 2020-21 کے بیشتر عرصہ کوویڈ 19 وبائی امراض اور معاشی بحران کی نذر ہوگیا ہے اور حکومت مطلوبہ تجارتی ٹیکس محصولات دوبارہ حاصل کرنے کے موقف میں بھی نہیں اور اس میں سے زیادہ تر ٹیکس ایندھن اور شراب پر عائد ویاٹ سے حاصل ہوتا ہے۔
سبزیوں ، پھلوں اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں آمدورفت کے اخراجات کی وجہ سے اضافہ ہورہا ہے جس کے بعد عوام کی جانب سے آہستہ آہستہ یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو چاہئے کہ ایندھن پر بالترتیب ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں کمی لائے جو پہلے عائد کیا گیا تھا۔ جب خام تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا لیکن ذرائع نے کہا ہے کہ ریاستی حکومت معاشی بحران اور کورونا کے مابین پھنس گئی ہے کیونکہ جب وہ اپنے فلاحی پروگراموں کے لئے اپنی آمدنی کو 40000 کروڑ روپئے خرچ کرنا پڑتا ہے تو اس میں ویاٹ کو کم کرنے کے مطالبے پر بظاہرغور ممکن نہیں اور ترقیاتی کام جن کے لئے حکومت پر فنڈز جاری کرنے اور منصوبوں کو تیز کرنے پر سختی سے دباؤ ہے۔
تقریبا 50000 کروڑ روپئے کے محصولاتی کمی کو دیکھتے ہوئے ریاستی حکومت نے محکمہ کمرشل ٹیکس کو ہدایت دی ہے کہ وہ آئندہ 45 دنوں میں ٹیکسوں کی وصولی کو آسان بنائے ۔ تلنگانہ میں ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور عوام پڑنے والا بوجھ اور اس کے منفی نتائج آہستہ آہستہ انتخابی مسئلے میں تبدیل ہو رہے ہیں کیونکہ ناگرجناساگر حلقہ میں اسمبلی ضمنی انتخاب اور دوگریجویٹ ایم ایل سی نشستوں کا انتخاب عمل میں آرہا ہے۔