نئی دہلی ۔ہندوستان بھر میں اس وقت جہاں نفرت ، تعصب اور فرقہ وارانہ ماحول کوگرماجارہا ہے ان تمام حالات میں ایک خبر ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کیلئے خوش آئند بھی ہے جس نے ملک میں ہندو۔ مسلم اتحاد کیلئے ایک نئی راہ ہموار کی ہے اور یہ خبر کسی سیاسی جماعت یا شاہی گھرانوں سے نہیں بلکہ جیل سے آرہی ہے جہاں150 سے زائد ہندو قیدکی سزا کاٹنے کے ساتھ ماہ مبارک رمضان میں اپنے مسلم دوستوں کا ساتھ دینے کیلئے روزے کا اہتمام کررہے ہیں ۔ ہندوستان ٹائمز کی خبر کے بموجب تہاڑ جیل میں 150 سے زیادہ ہندوقیدی روزہ رکھ رہے ہیں ۔ تہاڑ جیل کے حکام نے کہا ہے کہ گزشتہ سال کی بہ نسبت اس سال جیل میں زورہ دار ہندو قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔
تہاڑ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے بموجب گزشتہ سال جیل میں ہندو روزے داروں کی تعداد 59 تھی لیکن اس سال اس تعداد میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے اور مئی کے پہلے ہفتے میں تہاڑ جیل میں روزہ رکھنے والے ہندووںکی تعداد 150 تک پہنچ چکی ہے ۔ یہ صرف تہاڑ جیل کا ہی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ہندوستان بھر میں مختلف جیل خانوں میں ہندو قیدیوں نے اپنے جیل سپرنٹنڈنٹ کو مطلع کیا ہے کہ وہ اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے روزہ رکھنا چاہتے ہیں ۔ تہاڑ کے مختلف جیلوں میں جب جیل سپرنٹنڈنٹس نے اپنے ہندو اور مسلم قیدیوں کیلئے روزہ کے اہتمام کیلئے سحری اور افطار کا انتظام کرنا شروع کیا تو یہ تعداد 16,665 ہوگئی جس میں کم از کم ہندو روزہ داروں کی تعداد 2,658 ریکارڈ کی جارہی ہے ۔
ہندو قیدیوں کی جانب سے روزہ کا اہتمام کرنے کی مختلف وجوہات جیل حکام نے بتائی ہیں ۔ جیل حکام کے بموجب روزہ کا اہتمام کرنے والے اکثر ہندووں نے مسلم دوستوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کو بنیادی وجہ قرار دی ہے ۔ شاید یہ اس حقیقت کا اظہار نہیں کرنا چاہتے کہ وہ قید خانے میں مذہب سے قریب ہوسکے ہیں اور روحانی سکون چاہتے ہیں ۔ جیل حکام کے بموجب قید کی سزا کے آغاز کے ساتھ ہی 80 تا 90 فیصد قیدی مذہبی امورکی انجام دہی میں زیادہ دلچسپی لینے لگے ہیں اور ان کے اس برتاو اور تبدیلی کے باعث امن میں مثبت پیش قدمی ہوئی ہے جس کے بعد ان کی سزاؤں کی مدت بھی کم کرتے ہوئے انہیں جلد رہائی بھی مل جاتی ہے ۔
جیل میں ہندوؤں کے رمضان المبارک میں روزے رکھنے کے علاوہ ایسی ہی خبریں ہندوستان بھر کی جیلوں سے نوراتری کے موقع پر بھی آتی ہیں جب کئی مسلم قیدی اپنے ہندو ساتھیوں کے ساتھ روزہ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ رحجان صرف تہاڑ جیل میں ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستان بھر کی مختلف جیلوں میں پروان چڑھ رہا ہے ۔
جیلوں میں ماہ رمضان المبارک میں مسلم قیدیوں کے ساتھ ہندوؤں کا بھی روزہ رکھنا اور جیل حکام کی جانب سے افطار میں کھجوروں کے ساتھ روح افزا فراہم کرنے کے علاوہ بعض مقامات پر باہر سے حفاظ کا انتظام کرتے ہوئے نماز تراویح کا بھی اہتمام کرنا ہندو مسلم اتحاد کا ایک اعلی ترین نمونہ ہے جبکہ جیل کی کیانٹینوں میں افطار میں استعمال ہونے والی اشیاءکا بھی اسٹاک فراہم کیا جارہا ہے ۔
جیل کی چار دیواری میں بہت کچھ ہوتا ہے بحیثیت شہری ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ جیل کی چار دیواروں کے درمیان جن افراد کو مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور وہ غیرضروری پریشانیوں کی وجہ سے ذہنی تناو کا شکار ہورہے ہیں اور انہیں یہ غم بھی دیمک کی طرح کھائے جاتا ہے کہ جب جیل سے ان کی رہائی ہوگی تو سماج کس طرح انہیں قبول کرے گا کیونکہ ایک جانب انہیں سماج کے برتاو کی وجہ سے ذہنی پریشانی لاحق ہوتی ہے تو دوسری جانب ہمارے نظام میں موجود خامیوں کی وجہ سے جو تاخیر ہوتی ہے اس سے ان قیدیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے ۔
جیل اور قیدیوں کے مسائل کافی تشویش ناک اور سنگین ہوتے ہیں ۔ اس طرف توجہ نہیں دی جاتی حالانکہ 2003 میں انسانی حقوق کے قومی کمیشن کے چیرمین جسٹس اے ایس آنند نے جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں اور دیگر سنگین مسائل کی سمت توجہ مبذول کروائی تھی ۔ جسٹس اے ایس آنند نے اعتراف کیا تھا کہ یہ بڑی دردناک حقیقت ہے کہ 75 فیصد سے زیادہ جو قیدی جیل میں ہیں وہ زیردریافت ہیں اس کے علاوہ ایک درد ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسے زیردریافت قیدیوں کی بھی ایک بڑی تعداد جیلوں میں ضمانت کے باوجود ہنوز مقید ہے کیونکہ ان کے پاس ضمانت کیلئے ادا کرنے کیلئے رقم نہیں ہے ۔ الغرض جہاں جیل میں ہندو مسلم اتحاد کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تو جیل کے باہر ہم آزاد شہریوں کا یہ فرض ہےکہ قیدیوں کی رہائی کیلئے اپنی زکوة اور خیرات کا استعمال کریں تاکہ آزادی سے کئی چہروں پر حقیقی خوشی بکھر سکے ۔