نئی دہلی ۔ سپریم کورٹ نے سورت میں ایک تین سال کی بچی کی عصمت ریزی اور قتل کے قصوروار ایک شخص انیل یادوکی پھانسی کی سزا کے لئے جاری ڈیتھ وارنٹ پر جمعرات کو روک لگادی۔چیف جسٹس شرد اروند بوبڑے ،جسٹس بی آرگوئی اور جسٹس سوریہ کانت کی بینچ نے سورت کی پاکسو عدالت کے ذریعہ جاری ڈیتھ وارنٹ پر روک لگادی۔
سماعت کے دوران قصوروارکی جانب سے پیش سینئر وکیل اپراجیتا سنگھ نے بینچ کو بتایا کہ گجرات ہائی کورٹ کے ذریعہ موت کی سزا کی تصدیق کرنے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے لئے 60 دنوںکا وقت تھا لیکن اس سے پہلے ہی ڈیتھ وارنٹ جاری کردیاگیا۔اس پر چیف جسٹس بوبڑے نے کہا کہ پہلے ہی سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ ڈیتھ وارنٹ تب تک جاری نہیں کیاجاسکتا جب تک کہ قصوروار سارے قانونی عمل پورے نہ کرلے ۔
دراصل پھانسی کی سزا والے معاملے میں ہائی کورٹ سے سزا کی تصدیق ہونے کے بعد اس کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرنے کے لئے قصوروارکو 60 دنوں کا وقت ملتا ہے لیکن اس مقدمہ میں گجرات ہائی کورٹ کے ذریعہ پھانسی کی سزا برقراررکھنے کے حکم(27دسمبر 2019)کے محض تین دن کے اندر ہی ٹرائل کورٹ نے ڈیتھ وارنٹ جاری کردیاتھا اسی بنیاد پر سپریم کورٹ نے آج ڈیتھ وارنٹ پر روک لگادی۔
قصوروار انیل یادو نے اکتوبر 2018 میں سورت میں تین سال کی بچی کی عصمت ریزی کی تھی اور پھر بعد میں اسے قتل کردیاتھا ۔ اگست2019 میں سورت کے لمبایت علاقے میں ساڑھے تین سال کی بچی سے عصمت ریزی کے بعد قتل کرنے والے کو اسپیشل پوکسو کورٹ نے موت کی سزا سنائی تھی۔ اس معاملے میں تقریباً نو مہینے تک سماعت جاری رہی تھی جس کے بعد قصوروارکو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ بچی والوں نے عصمت ریزی کے بعد قتل کرنے والے انیل یادو کو موت کی سزا دیئے جانے کا مطالبہ کیاتھا۔
واضح رہے کہ 14اکتوبر 2018 کی شام متاثرہ بچی اپنے گھر کے پاس کھیل رہی تھی۔ تبھی اسی بلڈنگ میں رہنے والا 20سالہ انیل یادو بہلا پھسلاکر بچی کو اٹھالے گیا۔وہ اسے اپنے کمرے میں لے گیا جہاں معصوم بچی کے ساتھ عصمت ریزی کی اور اس کے بعد اسے قتل کردیا۔
لاش کو پلاسٹک بیگ میں ڈال کر ایک ڈرم میں چھپا دیا۔پکڑے جانے کے ڈر سے وہ 15اکتوبر کو اپنے کمرے میں تالا لگاکر فرار ہوگیا۔پولیس نے جانچ شروع کی۔ پتہ چلا کہ انیل بہار میں ہے ۔ پولیس وہاں گئی اور اس کے آبائی رہائش گاہ سے اسے گرفتار کیا۔خصوصی تفتیشی ٹیم نے صرف ایک مہینے میں اس کے خلاف چارج شیٹ داخل کی۔ سماعت پوری ہونے کے بعد کورٹ نے اسے مجرم قراردیا تھا اور پھر موت کی سزا سنائی تھی۔