نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء کو دہلی ہائی کورٹ نے کسی عبوری ریلیف سے انکار کے بعدوکلاء نے شرم شرم کے نعرے لگائے۔جب چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس سی ہری شنکر پر مشتمل ڈویژن بنچ عبوری ریلیف کوبرخاست کرنے اور جواب دہندگان کو نوٹس جاری کرنے کے بعد اٹھ رہے تھے تو،سینئیر ایڈوکیٹ اندرا جئے سنگ سمیت دیگر وکلاء کے ایک گروپ نے ”شرم،شرم“ کے نعرے لگانا شروع کیا۔
عدالت یونیورسٹی میں پولیس کی بربریت اور تشدد اور جھڑپوں سے متعلق درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔سماعت کے دوران سینئیر ایڈوکیٹ سلمان خورشید نے کہا کہ عدالت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جس سے پیغام پہنچے۔انہوں نے کہا ”ہم زخموں کو بھرنے اور آگے بڑھنے کے لئے ایک طریقہ کار ڈھونڈ رہے ہیں۔عدالت کو وائس چانسلر سے سی سی ٹی وی فوٹیج کو محفوظ رکھنے کے لئے کہنا چاہئے۔
انہوں نے کہا ”متاثرین کے بیان کی بنیاد پر ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی۔ایک شخص کی آنکھ ضائع ہو گئی اور دوسرا گولی لگنے سے زخمی ہو گیا“۔خورشید نے پوچھا کہ کیا کارروائی سے پہلے کو ئی انتباہ دیا گیا تھا،اور کیا خاتون کانسٹیبل موجود تھیں۔؟
عدالت کو بتایا گیا کہ 15دسمبر کو”450آنسو گیس کے شل“شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پرچھوڑے گئے تھے۔آزادی کے بعد طلبہ پر اسے سب سے برا حملہ قراردیتے ہوئے وکلاء نے سالیسٹر جنرل سے ایمیو سیس کیوری بننے کی اپیل کی۔در خواست گزاروں کی جانب سے بحث کرنے والے وکلاء میں سنجے ہیگڑے اور جئے سنگھ شامل تھے۔
در خواست گزاروں نے بتا یا کہ پولیس اجازت کے بغیر اکیمپس اور لائبریری میں داخل ہوئی۔انہوں نے کہا کہ‘ویریٹی کے چیف پروکٹر نے بھی پولیس کے اس دعوے کی تردید کی تھی کہ انہوں نے پولیس کو کیمپس میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔انہوں نے ایمز کے ذریعہ جاری کردہ میڈیکل رپورٹ کا بھی حوالہ دیا،جس مین اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ایک طالب علم کو گولی لگی ہے۔انہوں نے کہا کہ طلباء کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا رہی ہے اور انہیں مجرموں کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے۔”یہ بنیادی حقوق کی پامالی کا سنگین معاملہ ہے“۔
ہیگڑے نے پولیس کی کارروائیوں پر سوال اٹھایا،جیسے کہ کیمپس میں مسجد اور لائبریری میں داخل ہونا اور مظاہرین پر آنسو گیس اور گولیوں کے استعمال کو جواز بنانا۔جئے سنگ نے کہا کہ ملک بھر میں عدم تشدد کی جڑ پر قائم کردہ سی اے اے کے خلاف احتجاج ہوا۔ہم سب امن کی بھالی دیکھنا چاہتے ہیں،لیکن اس کے لئے حکام کے لئے ضروری ہے کہ وہ امن کے اقدامات کریں۔