سڑکیں اور گلیاں سنسان ، پولیس کا بعض مقامات پرعوام سے جابرانہ برتاؤ
حیدرآباد ۔ کرونا وائرس کے خلاف ہندوستان کے اقدامات کے تحت 22 مارچ کو ایک دن کی جنتا کرفیو کا اعلان کیا گیا اور اس کے تحت آج صبح سے ہی دونوں شہروں حیدرآباد اور سکندرآباد کے مختلف علاقوں میں اس کا اثر دیکھنے کو ملا ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے کرونا وائرس کے خلاف ایک دن کی جنتا کرفیو کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر کی جانب سے اسے 24 گھنٹے میں تبدیل کیا گیا اورآج صبح فجر کے بعد سے ہی اس کا اثر دونوں شہروں کے مختلف مقامات پر دیکھنے کو ملا کیونکہ روزانہ کے اوقات میں جو سڑکیں مصروف ترین ہوتی تھی آج وہ طلوع آفتاب سے سنسان دکھائی دیں۔ دونوں شہروں میں جنتا کرفیو کا اثر اس قدر رہا کہ شہر کی مصروف ترین سڑکوں پر جہاں کوئی فرد نہیں تھا اور صبح سے ہی پولیس کے عہدیدار کرفیو کو کامیاب بنانے کے لئے مختلف مقامات پر تعینات تھے ۔
نیا شہر جو کہ اتوار کو صبح سے ہی مختلف مصروفیات میں سرگرم دکھائی دیتا ہے وہ بھی جنتا کرفیو کی وجہ سے سنسان رہا کیونکہ سکندرآباد کے اہم میدانوں جیسے پریڈ گراؤنڈ ،سکھ ولیج گراؤنڈ جہاں اتوار کی صبح سے ہی مقامی افراد کی درجنوں ٹیمیں کرکٹ کھیلنے میں سرگرم دکھائی دیتی ہے لیکن آج یہ میدان سنسان رہے کیونکہ یہاں پولیس عہدیدار مقامی افراد کو کرکٹ کھیلنے سے سے روک رہے تھے ،تاہم شوگر کے مریضوں کو کچھ دیر واکنگ اور جاگنگ کی خصوصی اجازت دی گئی کیونکہ شہر میں گزشتہ ایک ہفتے سے جم بھی بند ہیں جس کے تناظر میں انہیں خصوصی رعایت دی گئی جو دس پندرہ منٹ میں اپنی ورزش ختم کردیں۔ علاوہ ازیں سکندرآباد کے مختلف محلوں میں صبح کے اوقات دودھ کی سربراہی کو یقینی بنایا گیا لیکن اس کے بعد روز مرہ کی اشیاء کی دکانیں بھی بند کردی گئی ۔ چندایک مقامات پر فجر کے ساتھ ہی مقامی چند لڑکے کرکٹ کھیلتے دکھائی دیئے جس میں بالامر عیدگاہ کی مشہور اور معروف صوفی مسجدبھی شامل ہے ، جہاں طلوع آفتاب کے ساتھ ہی کچھ بچے کرکٹ کھیلتے دکھائی دیے ۔
دریں اثنا ریاست تلنگانہ اسمبلی کے روبرو پولیس کمشنر حیدرآباد کی ایک پریس کانفرنس میں منعقدہ ہوئی جس میں واضح کیا گیا کہ حیدرآباد میں جنتا کرفیو انتہائی کامیاب رہا ۔پولیس کمشنر کے مطابق صبح صرف ایک فیصد ایسے افرادجنہیں ضروری طور پر دواخانہ سے رجوع ہونا تھا انہیں نقل حرکت اور سفر کی اجازت دی گئی دوسری جانب شہر کی تمام گلی کوچے اور اہم راستے سنسان رہے۔
محلوں اور گلیوں میں عوام کو گھروں تک محدود رکھنے کے لیے پولیس کو کسی قدر مشقت بھی برداشت کرنی پڑی کیونکہ محلوں میں لوگ گھروں سے باہر نکل رہے تھے جنہیں گھروں میں رہنے کی ہدایت دینے کے لیے پولیس عہدیداروں کو مسلسل گلیوں کے چکر لگانے پڑ رہے تھے اور بار بارسمجھانے کے باوجودبھی عوام گھروں کے سامنے جمع ہو رہے تھے جس کے خلاف پولیس کو سخت رویہ اختیار بھی کرنا پڑا۔ واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر کئی ایک ایسے ویڈیوزاور تصاویر بھی گشت کرتی رہی جن میں عوام سے پولیس عہدیداروں کا ظالمانہ برتاؤ دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ پولیس عوام کو لاٹھیوں سے مارنے کے علاوہ گالی کلوج کا بھی مظاہرہ کررہی تھی۔
مختلف مقامات میں ان بے سہارا افراد کو کوئی پرسان حال نہیں تھا جبکہ سڑکوں پر شب بسری کرتے ہیں ۔ایسے افراد کی سوشل میڈیا پر تصاویر شائع کرتے ہوئے حیدرآبادی عوام ان بے سہارا افراد کی مدد کرنے کی ایک دوسرے سے درخواست کرتے رہے۔سڑکوں پر اپنی زندگی گذارنے والے افراد چونکہ مصروف ترین دنوں میں اپنے کھانے پینے کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں لیکن چونکہ آج شہر میں بند تھا تو انہیں اپنی بنیادی ضرورت کی تکمیل میں بھی مشکل ہوگئی تھی ۔