حیدرآباد : آندھرا پردیش کے دارالحکومت امراوتی کی ان ترقی نہیں ہو گی۔کیونکہ مئی میں ریاست کے نئے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کے دن سے ہی وائی ایس جگن موہن ریڈی کی ترجیح واضح تھی۔
آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ وائی ایس جگن موہن ریڈی نے آندھرا کے دارالحکومت امراوتی کو ترقی دینے کے لئے اراضی کے حصول کو ایک بڑا گھوٹالہ قرار دیا اور کہا کہ ان کی حکومت اس کی مکمل تحقیقات کر وائے گی۔جگن ریڈی نے دعوی کیا کہ ان کے پیشرو،وزیر اعلیٰ این چندرا بابو نائیڈو اور ٹی ڈی پی کے دیگر رہنماؤں نے اندرونی تجارت کا سہارا لیا،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نیا دارالحکومت کہاں قائم ہونی والی تھی اور کم قیمتوں پر زمینیں خرید لیں۔
جگن موہن کے یہ الزامات نئے نہیں ہیں کیونکہ وہ اس سے قبل جب وہ حزب اختلاف کے رہنما تھے،تب بھی اس معاملہ پر ٹی ڈی پی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
وائی ایس آر سی پی کے بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کرکے اقتدار میں آنے کے بعد،امراوتی میں چل رہے کام رک گئے۔جگن ریڈی کے تبصروں سے کسانوں میں خوف و ہراس پھیل گیا،جو دارالحکومت کے لئے دی ہوئی 33000ایکڑ اراضی پر مشتمل اپنی جائدادوں کی ترقی کی صورت میں اچھے منافع کی توقع کر رہے تھے۔
امراوتی میں املاک کی قیمتیں بھی گر گئیں۔پچھلے مہینے ورلڈ بینک اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمینٹ بینک (اے آئی آئی بی)نے بھی امراوتی کی ترقی کے لئے فنڈ دینے سے اپنے ہاتھ روک لئے۔انہوں نے عماراتی پائیدار انفراسٹرکچر اور ادارہ جاتی ترقیاتی منصوبے کے لئے 500ملین دینے کا وعدہ کیا تھا۔
اس سے حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین الزام تراشی کا کھیل شروع ہوا۔جگن ریڈی نے کہا کہ تلگو دیشم حکومت کی بد عنوانی کے نتیجے میں عالمی ایجنسیوں نے اپنے ہاتھ کھینچ لئے۔ جبکہ نائیڈو نے دعویٰ کیا کہ یہ وائی ایس آر سی پی کے اپوزیشن میں رہتے ہوئے دائر کی گئی شکایت کا نتیجہ تھا۔
پچھلے دو۔ڈھائی مہینوں میں اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کے لئے معاشرے کے مختلف طبقات کے لئے کئی اسکیموں کا اعلان کرتے
ہوئے،جگن ریڈی نے امراوتی کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا،یہاں تک کہ گذشتہ ماہ سفارتی عملے اور 30ممالک کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی۔
2019-20کے بجٹ میں،حکومت نے امراوتی کے لئے صرف 500کروڑ روپئے مختص کئے۔ جس سے ایک اور واضح اشارہ دیا گیا کہ ریاست کا دارالحکومت ان کی ترجیح نہیں ہے۔اس سے یہ قیا س آرائیاں بھی پیدا ہو گئیں کہ جگن ریڈی امراوتی کو مکمل طور پر دارالحکومت کے طور پر ختم کر دیں گے،کیونکہ یہ چندرابابو نائیڈو کی دماغی پیداوار تھی۔
سیاسی تجزیہ کار تلکپلی روی نے بتایا کہ ”امراوتی وزیر اعلیٰ کی ترجیح نہیں ہے،لیکن یہ صرف ایک پروپگنڈہ ہے کہ وہ اسے ختم کر دیں گے۔“
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جگن ریڈی امراوتی سے گریز نہیں کر سکتے،کیونکہ چار سالوں سے ریاستی دارالحکومت وہاں سے کام کر رہا ہے اور دارالحکومت کو منتقل کرنے کا کوئی بھی اقدام ان کے لئے نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔
چندرا بابو نائیڈو کی طرح،جگن ریدی بھی پسماندہ اور خشک سالی سے متاثرہ رائلسیما خطے سے آتے ہیں لیکن انہیں پوری طرح احساس ہے کہ جنوبی ساحلی آندھرا میں وجئے واڑہ کے قریب کا علاقہ اس کے لئے مرکزی محل وقوع سمیت تمام زاویوں سے دارالحکومت کے لئے موزوں ہے۔
امراوتی کو آندھرا پردیش میں مرکزی طور پر واقع ہونے کا جغرافیائی فائدہ ہے۔لہذا موجودہ مقام سے دارالحکومت کو منتقل کرنا آسان نہیں ہوگا۔