Monday, April 21, 2025
Homeٹرینڈنگجہدکاروں کی گرفتاری کے مسئلہ پر مداخلت کرنے سے سپریم کورٹ کا...

جہدکاروں کی گرفتاری کے مسئلہ پر مداخلت کرنے سے سپریم کورٹ کا انکار

سپریم کورٹ کا فیصلہ بدبختانہ اور غیر متوقع، پروفیسر ورا ورا راؤ کے خاندان کا عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر تبصرہ۔

نئی دہلی۔ پروفیسر ورا ورا راؤ کے خاندان کے ایک فرد نے وزیر اعظم نریندر مودی کے قتل کے الزام میں پانچ جہدکاروں کی گرفتاری میں مداخلت سے سپریم کورٹ کے انکار پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے بدبحتانہ اور غیر متوقع قرار دیا ۔ یہ پانچ جہدکاران دنوں اپنے گھر پر محروس ہیں۔ بائیں بازو کے قلم کار اور دیگر چار جہدکاروں کو گذشتہ ماہ پونے پولیس نے حیدرآباد سے گرفتار کرلیا تھا جبکہ ورنن گونزوالز اور ارون فریریا کو ممبئی سے، ٹریڈ یونین لیڈر مس سدھا بھردواج کو فریدآباد، ہریانہ اور سیول لبرٹیز قائد مسٹر گوتم نولکھا کو نئی دہلی سے گرفتار کرلیا گیا تھا، تاہم سپریم کورٹ کی ہدایت پر انہیں اپنے اپنے گھروں پر محروس رکھا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے آج کورے گاؤں بھیما تشدد مقدمہ کے سلسلہ میں پانچ جہدکاروں کی گرفتاری میں مداخلت کرنے سے انکار کردیا۔ عدالت نے کارکنوں کی فوری رہائی کی درخواست کو بھی مستردکردیا۔ پروفیسر ورا وراراؤ کے بھتیجہ وینو گوپال راؤ نے کہا ’’ یہ بدبختانہ اور غیر متوقع ہے چونکہ جس انداز میں ساری کارروائی چلائی گئی اور ججوں نے جو ردعمل دیا تھا اس سے ہم یہ توقع کررہے تھے کہ مقدمہ خارج کردیا جائے گا …. عدالت میں من گھڑت شواہد کے جھوٹ کا بھانڈہ پھوٹ جانے کے باوجود آج کا فیصلہ ہماری توقعات اور امیدوں کے خلاف آیا ہے۔‘‘ اگرچہ عدالت نے مداخلت سے انکار کردیا تاہم اس نے گھر پر نظر بندی میں چار ہفتوں کی توسیع کردی ہے۔ اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے پروفیسر ورا ورا راؤ کی اہلیہ ہیما لتا نے کہا کہ ہم اس فیصلہ کی توقع نہیں کررہے تھے۔ میں اور ورا رورا راؤ معاملہ کو عدالت تک لے جانے پر ہمارے وکلاء کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ عدالت میں ہونے والی مباحث کے پیش نظر ہم یہ توقع کئے تھے کہ گرفتاری کا مقدمہ خارج کردیا جائے گا۔ پروفیسر ورا ورا راؤ کو 28 اگست کو پونیپولیس نے حیدرآباد سے گرفتار کیا تھا تاہم 30 اگست کو سپریم کورٹ کی ہدایت پر انہیں گھر پر محروس رکھا گیا ہے۔ مسٹر وینو گوپال نے کہا کہ پروفیسر ورا ورا راؤ اور دیگر کے خلاف درج مقدمہ کو برخاست کرنے بمبئی ہائی کورٹ یا حیدرآباد میں ہائی کورٹ سے رجوع ہوں گے۔