نئی دہلی: جواہر لال نہرو ونیورسٹی (جے این یو) میں اتوار کے روز بھیانک تشد د دیکھا گیا،جس میں کئی نقاب پوش افراد،جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ انہوں نے یونیورسٹی کیمپس کے اندر داخل ہوکر طلباء اور اساتذہ کے ساتھ لکڑی اور لوہے کی سلاخوں سے مار پیٹ کی،اور کئی طلباء کو زخمی کر دیا۔اگر چہ کہ دن کے وقت ہونے والی جھڑپوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے،شام کے تصادم کے بعد کم از کم 20افراد کو شدید زخمی حالت میں ایمس میں داخل کیا گیا تھا۔
ان زخمیوں میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی طلباء یونین (جے این یو ایس یو) کے دو عہدیدار بھی شامل تھے،جن میں یونین کی صدر عیشی گھوش،اور جے این یو ایس یو کے جنرل سکریٹری ستیش چندر بھی زخمی ہوئے تھے۔عیشی گھوش کولوہے کی سلاخ سے آنکھ پر مارا گیا تھا۔اس بارے میں انہوں نے کہا ”نقاب پوش افراد نے مجھے بے دردی سے مارا پیٹا،مجھے نہیں معلوم کے وہ کون تھے“۔
جے این یو ایس یو کے نائب صدر سکیٹ مون نے آر ایس ایس سے وابستہ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(اے بی وی پی) پر حملے کی رہنمائی کرنے کا الزام لگایا۔ایک طالب علم نے مغموم انداز میں بتایا ”میں کمرے میں تھی اور میں نے شور سنا اور میں نے کئی لڑ کیوں کو آتے ہوئے دیکھا اور میں نے سبھی کو اپنے کمرے بند کرنے کو کہا۔ہم دہشت میں تھے،جب میں نے ایک ویڈیو شوٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو انہوں نے مجھے پتھر سے مارا“۔
دوسری طرف،اے بی وی پی نے بائیں بازو سے وابستہ طلباء کو اس کے کارکنوں پر پہلے حملہ کرنے کا ذمہ دار ٹہرایا۔اے بی وی پی نے دعویٰ کیا کہ اس کے صدارتی امیدوار منیش جانگیڑ بری طرح زخمی ہو گئے تھے اور ان کے ہاتھ میں فریکچر ہو گیا تھا۔
خفیہ رپورٹوں اور طلبہ کے مطابق،سمسٹر رجسٹر کو روکنے کے خواہاں طلباء کے مابین تصادم،ہاسٹل فیسوں میں اضافے اور ان کے مخالف گروپوں کے خلاف تحریک کے ایک حصے کے طور پر شروع ہوا۔پہلے گروپ کے ممبران مبینہ طور پر جمعہ کی دیر رات ورسیٹی کے وائی فائی نیٹ ورک میں خلل ڈالنے میں ملوث تھے۔
جے این یو انتظامیہ نے کیمپس میں تعینات پولیس کو طلب کیا اور ممکنہ احکامات نافذ کر دئے۔اتوار کی رات کو ورسیٹی کے مرکزی شمالی گیٹ سے چار غنڈوں کو پکڑا گیا۔دونوں گروپس تشدد کے بارے میں شکایت درج کر وانے دیر رات وسنت کنج پولیس اسٹیشن پہنچے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ،اگر پولیس نے بر وقت کارروائی کی ہوتی تو،اس تشدد کو روکا جاسکتا تھا۔اسپیشل کمشنر پولیس،آر ایس کرشنیا نے بتایا کہ پولیس،تصادم کے بعد صرف یونیورسٹی انتظامیہ کی در خواست پر کیمپس میں داخل ہوئی۔
مر کزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے دہلی پولیس کمشنر امولیا پٹ نائک کو کیمپس میں صورتحال پر قابو پانے کے لئے تمام ضروری کارروائی کرنے کا حکم دیا اور انہوں نے اس کی تحقیقات کا بھی حکم دیا۔جے این یو کے اس واقعہ کی سیاسی حلقوں نے پر زور مذ مت کی ہے۔جے این یو کے دو سابق طلباء، مرکزی وزیر کزانہ نرملا سیتا رمن اور وزیر برائے خارجہ ایس جئے شنکر نے اس تشدد کی مذ مت کی۔
کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا،جو جے این یو کے زخمی طلباء سے ملنے کے لئے آل اندیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پہنچ گئیں،بعد میں انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ”دنیا میں ہندوستان کی تصویر لبرل جمہوری ملک کی ہے۔مودی شاہ کے غنڈے یونیورسٹیوں میں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں اور اپنے مستقبل بنانے کی تیاریوں میں لگے طالب علموں میں خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بھی جے این یو واقعہ پر حکومت کی تنقید کی،اور کہا کہ ”نقاب پوشوں کی جانب سے جے این یو کے طلباء اور اساتذہ پر حملہ،جسمیں متعدد زخمی ہوئے ہیں، چونکا دینے والا ہے۔فاشسٹ،ہمارے بہادر طلباء کی آواز سے خوفزدہ ہیں۔جے این یو میں یہ تشدد اسی خوف کا عکاس ہے۔
سی پی ایم کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری،جو جے این یو ایس یو کے سابق رہنما بھی ہین،نے اس تشدد کی مذمت کی ہے اور پارٹی کی طلبہ تنظیم اسٹوڈینٹس فیڈریشن آف انڈیا نے پیر کو ملک گیر احتجاج کیا۔سی پی آئی (ایم) کی رہنما برندہ کرات بھی زخمی طلباء سے ملاقات کے لئے ایمس پہنچیں۔دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے بھی کہا کہ وہ تشدد سے حیران ہیں۔
سماج وادی پارٹی کے سر براہ اکھیلیش یادو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے جے این یو کے واقعہ کی مذ مت کی،انہوں نے کہا ”بی جے پی معاشرے کو پولرائز کرنے اور عدم اطمینان پھیلانے کے لئے تشدد اور نمفرت کا استعمال کر رہی ہے۔اے بی وی پی،بی جے پی کے طوفانی قائدین کی طرح کام کر رہی ہے۔اکھیلیش نے کہا کہ اتوار کو ہونے والا جے این یو کا واقعہ منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا ہے۔انہوں نے اس حملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بی ایس پی نے ہجوم کی جانب سے کئے گئے اس حملے کوشرمناک قرار دیتے ہوئے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی نے پیر کو ہندی میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ”جے این یو طلباء اور اساتذہ کے کلاف تشدد شرمناک اور قابل مذمت ہے۔مرکز کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے اور عدالتی تحقیقات کا حکم دینا چاہئے۔
کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی نے بھی جے این یو کے مذ کورہ واقعہ کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا ’پوری کانگریس پارٹی،ہندوستان کے نوجوانوں اور طلباء سے اظہار یکجہتی کرتی ہے۔کانگریس صدر نے کہا کہ ”پورے ملک میں کیمپس اور کالجون میں پولیس یا شر پسندوں کی گڑ بڑ روز کا معمول بن چکے ہیں،سونیا گاندھی نے کہا کہ ”جے این یو واقعہ کے پیچھے بی جے پی حکومت کا ہاتھ ہے۔اسی طرح کانگریس کے سینئر رہنما پی چدمبرم،پارٹی کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے بھی جے این یو میں ہوئے اس واقعہ کی سختی سے مذمت کی اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
وہیں کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے پیر کو اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے سنگھ پریوار سے مطالبہ کیا کہ وہ یونیورسٹیوں کو خونریزی سے خاموش کرانے کے شیطانی منصوبے کوختم کر دے۔
جامعہ کے طلباء احتجاج کرنے کے لئے آئی ٹی او میں دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچے۔جبکہ جادھا پور یونیورسٹی اساتذہ ایسوسی ایشن نے معاشرے کے تمام طبقات سے اس ”گھناؤنے فعل“ کی مذمت کرنے کا مطالبہ کیا۔کولکتہ میں عیشی گھوش کے خوفزدہ والد ین نے جے این یو کے وائس چانسلر سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے اپنی بیٹی کو احتجاج سے دستبردار ہونے کے لئے نہیں کہا ہے۔