حیدرآباد ۔حیدر آباد میں مصر کی ممی موجود ہے جس کا مشاہدہ کرنے روزآنہ سینکٹرو ں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں اور اب ایک نائٹروجن چیمبر بنایا گیا ہے جوحیدرآبادکی مشہورمصری ممی کو اپنے ملک سے ہزاروں میل دورمحفوظ رہنے میں مددفراہم کررہا ہے۔ شہزادی نشوہوکی باقیات جو300قبل مسیح سے 100قبل مسیح کے درمیان ٹالیمیک دورمیں رہتی تھیں اس ممی کو یہاں باغ عامہ میں تلنگانہ اسٹیٹ آرکیالوجی میوزیم میں نائٹروجن چیمبر میں بحفاظت رکھا گیا ہے۔
اس ضمن میں اظہار خیال کرتے ہوئے میوزیم کی اسسٹنٹ ڈائریکٹراورممی کے چیف انچارج گنگا دیوی نے کہا ہے کہ اس وقت سے جب ممی کوحیدرآبادلایا گیا تھا اسے لکڑی کے تابوت میں رکھا گیا تھا، تاہم یہ تابوت اب بوسیدہ ہوگیا ہے ۔ کچھ سال قبل ، فن اور ورثہ کے تحفظ کے ماہر انوپم ساہ نے ممی کو محفوظ کرنے میں ہماری مدد کی۔ اب اسے سخت ماحول سے دور رکھا گیا ہے۔ ہم نے اسے جس شوکیس میں رکھا ہے وہ اس کے نیچے ایک نائٹروجن باکس سے منسلک ہے جو ممی کو نائٹروجن فراہم کرتا ہے اور آکسیجن 24/7 نکالتا ہے۔ اس سے ممی کو خراب ہونے سے بچایا جاسکتا ہے ۔ سانچے کے لئے استعمال ہونے والا شیشہ جرمنی سے درآمد کیا گیا ہے۔
نائٹروجن باکس کے علاوہ ممی کو مزیدخراب ہونے سے بچانے کے لئے حفاظتی ریپنگ پرت کے طور پر ایک عمدہ جالی شامل کی گئی ہے ۔ ماہرین نے یہ بھی یقینی بنایا کہ اس کا رنگ ممی سے ملتا ہے۔ممی کی حالت کے بارے میں بات کرتے ہوئے گنگا دیوی نے کہا ہے کہ جب ممبئی کے ماہرین ممی کو صحیح طریقے سے بچانے آئے تو ہم اسے اسکین کے لئے نامپلی کے ایک دواخانہ لے گئے۔ ممی کی پسلیوں کو نقصان پہنچا ہے اور اس کی ریڑھ کی ہڈی اور ٹخنوں پر جگہ جگہ فریکچرہے۔تاہم باقی کھوپڑی سمیت دیگر جسم بہتر ہے ۔سی ٹی اسکین نے انکشاف کیا کہ اس کے دماغ کا کچھ حصہ بھی برقرار ہے۔ عام طور پر ممیوں کے دماغ ناک کے ذریعے نکالاجاتا ہے۔
گنگا دیوی نے مزید کہا کہ ممی اب اچھی حالت میں ہے اور اسے کچھ دہوں تک بحالی کی ضرورت نہیں ہوگی۔اس سے پہلے اس کے پیر اورکھوپڑی کوبے نقاب کیا گیا تھا اور ممی کا ہوا سے براہ راست رابطہ ہوا تھا جو اس کی حالت کو خراب کررہا تھا۔ تاہم اب ہم نے ماہرین کی رہنمائی میں کو پوری طرح احتیاط سے لپیٹا ہے۔ یہ کم از کم دو دہوں تک محفوظ رہے گی لیکن مجھے یقین ہے کہ 20-25 سالوں کے بعد بھی ، یہ اچھی حالت میں ہوگی ۔ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ شہزادی نشوہو کی ممی ہندوستان کے چھ ممیوں میں سے ایک ہے جوکہ ملک کے سب سے محفوظ ورثہ میں سے ایک ہے۔