Wednesday, April 23, 2025
Homeٹرینڈنگحیدرآباد کی تاریخی عمارتیں،یکے بعد دیگرے حکومت کے نشانے پر

حیدرآباد کی تاریخی عمارتیں،یکے بعد دیگرے حکومت کے نشانے پر

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ تلنگانہ حکومت جس نے عوام کے لئے کئی ایک فلاح و بہبود کے کام کیے ہیں جس کی بدولت  ریاستی عوام نے اسے دوبارہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھایا ہے لیکن حکومت کے کچھ متنازعہ فیصلوں سے ایسا لگتا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت حیدرآباد کی تہذیب اور خاص کر یہاں کی قدیم عمارتوں اور مقامات کی مخالف ہے کیونکہ آئے  دن اس کے فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو کہ حیدرآباد کی صدیوں قدیم تہذیب کے نقوش کو مٹانے کی سازش لگتے ہے ۔حکومت کی جانب سے حالیہ عرصے میں حیدرآباد کی کئی اہم عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کی تازہ ترین مثال ارم منزل ہے۔

تاریخی عمارت ارم منزل اس وقت تلنگانہ حکومت کے نشانے پر ہے جہاں حکومت اسمبلی کمپلیکس بنانے کی خواہاں ہے۔  اس کے لیے حکومت نے عدالت میں کئی ایک موقف اختیار کیے ہیں ۔تلنگانہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تاریخی عمارت  ہریٹیج عمارتوں میں شامل نہیں لہذا اسے منہدم کرنے کے لئے ہیریٹیج کنزرویشن کمیٹی سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔اسمبلی کمپلیکس بنانے کے لئے ارم منزل کو تلنگانہ حکومت جو بہانہ بنا رہی ہے اس کے لیے اس نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس وقت جو اسمبلی کی عمارت ہے اس کی آہک پاشی اور نگہداشت کے لئے بہت زیادہ خرچ ہو رہا ہے اس کے علاوہ موجودہ عمارت میں کئی ایک حفاظتی انتظامات بھی معیار کے مطابق نہیں ہیں اور خاص کرآتشزدگی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے اس میں بہتر انتظامات موجود نہیں ہیں۔

حیدرآباد کے آصفجاہی دور میں تعمیر کردہ عالیشان عمارتوں میں ارم منزل کو ایک انفرادی مقام حاصل ہے یہ عمارت سابق ریاست حیدرآباد کے ایک امیر نواب فخر الملک نے1870 میں تعمیر کروائی تھی۔ وسیع و عریض رقبہ پر پھیلے ہوئے اس عظیم الشان محل میں جملہ 150 کمرے اور اسکے کے عقب میں باغات پولو اور گولف کے میدانوں کی بھی تعمیر کی گئی تھی۔حیدرآباد کی تاریخی عمارتوں میں ایک سنگ میل سمجھے جانے والی ارم منزل کی جگہ پر تلنگانہ اسمبلی کی نئی عمارت کیلئے چیف منسٹر  کے چندرشیکھرراؤ نے بھومی پوجا کی ہے۔ارم منزل کے مالک نواب فخر الملک کے وارثین نے حکومت کے فیصلے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیاہے۔ فیصلے کو واپس لینے کی اپیل کی ہے۔

تلنگانہ حکومت کی جانب سے تاریخی عمارت کو منہدم کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں بلکہ حالیہ برسوں میں حکومت کی جانب سے کی ایک تاریخی اور تہذیبی ورثہ کی نشانیاں جو عمارتوں کی شکل میں میں آج بھی حیدرآباد کی تہذیب کی جیتی جاگتی تصاویر ہیں انہیں ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،جس میں خاص کر عثمانیہ دواخانہ بھی شامل ہے ہے جس کے متعلق بھی حکومت نے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے اسے بھی منہدم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن مخالفت کی وجہ سے یہ معاملہ فی الحال برف دان کی نذرہوا ہے  ۔

عمارتوں کے علاوہ خالی میدان بھی حکومت کے نشانے پر ہیں یہی وجہ ہے کہ تلنگانہ حکومت کی جانب سے پریڈ گراؤنڈ پر بھی عمارتیں تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کی بھی مخالفت کرتے ہوئے اس معاملے کو روکا گیا ہے ۔اگر حکومت حیدرآباد کی تاریخی عمارتوں  کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں منہدم کرنے کے برعکس ان مقامات کی نشاندہی کرے تو زیادہ مناسب ہوگا جہاں حالیہ برسوں کے دوران سرکاری محکموں میں ملازمتیں انجام دینے والوں کے لیے رہائشی کمپلیکس فراہم کیے گئے تھے لیکن کئی ایک ایسے مقامات موجود ہیں جہاں اب درجنوں رہائشی کمپلیکس ویران پڑے ہیں اگر ان زمینوں کو استعمال کیا جائے تو نہ صرف حکومت کے منصوبوں پر عمل آوری ممکن ہوگی بلکہ حیدرآباد کی تاریخی اور ثقافتی عمارتوں کی بقا بھی بھی ہوجائے گی۔