Saturday, May 10, 2025
Homeٹرینڈنگحیدرآباد میں ریتو بازاروں کا بحران،مطلوبہ تعداد کا حصول مشکل ترین کام

حیدرآباد میں ریتو بازاروں کا بحران،مطلوبہ تعداد کا حصول مشکل ترین کام

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔  شہر حیدرآباد میں ریتو بازار کا بحران ہے کیونکہ حیدرآباد کی جملہ آبادی کے اعتبار سے جہاں شہر میں کم از کم 50 ر یتو بازار ہونے چاہیے وہیں شہر میں صرف 11 ریتو بازار ہی موجود ہیں۔ریتو بازار کی مطلوبہ تعداد شہر میں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو تازہ ترکاریوں اور میوہ جات کے حصول کے لیے کم ازکم تین تا چار کلو میٹر کی مسافت طے کرنی پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے دو تا چار گھنٹے صرف آمدورفت میں ہی گزر جاتے ہیں حالانکہ کے شہر کے محلے اور گلیوں میں ہفتے کے کسی ایک دن ترکاریوں کی مارکیٹ ضرور لگتی ہے لیکن یہ چند گھنٹوں کی مارکیٹ  عوام کی وہ بنیادی ضرورت ہی پوری کرتی ہے جس میں ہر خاص و عام کے گھر میں روزانہ کے سالن کے لیے ترکاری درکار ہوتی ہے لیکن دیگر اشیاء کی دستیابی ان ہفت وار مارکیٹوں میں پوری نہیں ہوتی۔

شہر حیدرآباد میں موجود ریتو بازاروں کا قیام 1999 میں عمل میں آیا تھا اور وہ اس وقت کی حیدرآباد کی آبادی کے حساب سے قائم کیے گئے تھے کیونکہ جس وقت یہ ریتوبازار قائم کیے گئے تھے اس وقت حیدرآباد کی جملہ آبادی 40 لاکھ تھی لیکن اس وقت حیدرآباد کی جملہ آبادی ایک کروڑ نفوس سے بھی  بڑھ چکی ہے ۔حیدرآباد کی موجودہ آبادی کے اعتبار سے شہر میں کم از کم ہر اسمبلی علاقے میں ایک ریتو بازار یعنی 27 ریتو بازاروں کی ضرورت ہے۔تغذیہ کے قومی ادارے (این ای این) کے مطابق ہر شہری کو روزانہ  300گرام ترکاری اور 100گرام میوہ جات استعمال کرنا ضروری ہے اوراس اعدادوشمار کے اعتبار سے شہر حیدرآباد کو روزانہ کم از کم 3000 ٹن ترکاریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

قومی ادارے کی جانب سے تجویز کردہ ترکاریوں اور میووں کی مقدار کے اعتبار سے سے حیدرآباد کی ہر دس ہزار آبادی کے لیے ایک ریتو بازار ضروری ہے۔جی ایچ ایم سی کی جانب سے حیدرآباد میں ماڈل مارکیٹس کے منصوبے پر عمل آوری ہنوز کاغذات تک محدود ہے۔ اگری مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کے عہدیداروں کے مطابق ایک ریتو بازار کے قیام کے لیے کم از کم ایک ایکڑ اراضی کی ضرورت ہوتی ہے تبھی بنیادی ضروریات اور دوکانات کی موجودگی کو یقینی بنایاجاسکتاہے ۔شہر حیدرآباد کی گنجان آبادی والے علاقوں میں ایک ایکڑ اراضی  کی دستیابی ایک مشکل ترین کام ہے اور اگر شہر کے مضافاتی علاقوں میں ریتوبازار کو قائم کیا بھی جاتا ہے تو اس کا فائدہ ہی نہیں ہوگا