Monday, June 9, 2025
Homeخصوصی رپورٹخرافات پر لاکھوں کا خرچ مگر مہر کی ادائی سے کوتاہی

خرافات پر لاکھوں کا خرچ مگر مہر کی ادائی سے کوتاہی

- Advertisement -
- Advertisement -

اطہر معین

بر صغیر ہند کے مسلمانوں میں نکاح کے تئیں جو سب سے بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے وہ ’مہر‘ کے سلسلہ میں ہے۔ مہر سے متعلق ہمارے ہاں بہت سے واہیات تصورات پائے جاتے ہیں۔ برصغیر ہند کی عورتوں کی نفسیات کچھ یوں بن گئی ہیکہ اگر شوہر ’مہر‘ ادا کرنا چاہے تو اس کے ذہن میں یہ بات کوند جاتی ہیکہ مبادا کہیں اس کے شوہر نے اس سے نجات پانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ روہانسی ہوجاتی ہے۔ بوقت عقد نکاح مہر کی ادائی کو نہ ہی لڑکی والے اور نہ ہی لڑکے والے فوقیت دیتے ہیں۔ تعین مہر کے بارے میں بھی ہمارے پاس بہت بڑی بے حسی پائی جاتی ہے۔ ایک اور غلط طریقہ ہم میں یہ رائج ہوگیا ہے کہ مہر کو گھوڑے جوڑے کے طور پر دی جانے والی نقد رقم سے متناسب کردیا گیا ہے یعنی اگر گھوڑے جوڑے کی رقم کے طور پر 5 لاکھ روپے دئیے جاتے ہیں تو مہر کی رقم اکیاون ہزار روپے مقرر کی جاتی ہے۔ قرآن حکیم میں ’مہر‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے معنی و مفہوم میں صدقات اور اجور کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں البتہ حدیث مبارکہ میں ’مہر‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ صنداق کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ اصطلاح شریعت میں مہر سے مراد وہ مال یا مالیت رکھنے والی چیز ہے جو عقد نکاح کے بعد بیوی کا حق بن جاتا ہے اور خاوند پر واجب الادا ہوجاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں نہ صرف یہ کہ مہر ادا کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ اسے اپنی طرف سے عائد کیا ہوا فریضہ بھی فرمایاجیسا کہ سورۃ الاحزاب میں ہیکہ بے شک ہمارے علم میں ہے وہ فریضہ جسے ہم نے مومنین کیلئے ان پر ان کی بیبیوں اور لونڈیوں کے بارے میں مقرر کئے ہیں تاکہ آپ پر کسی قسم کی تنگی ( واقع) نہ ہو اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے (آیت:50 )۔ عقد نکاح کے موقع پر مہر کی جو مقدار طئے پائے اس کی تکمیل کرنا خاوند پر واجب ہے۔ مہر صرف شرط کی تکمیل یا دکھاوے کیلئے مقرر نہیں کیا جاتا بلکہ اس کو ادا کرنا خاوند کے ذمہ ہے جب تک وہ اس کو ادا نہیں کرے گا وہ بیوی کا مقروض رہے گا اور ادا کئے بغیر فوت ہوجائے تو مقروض فوت ہوگا۔ وفات پر بھی مہر معاف نہیں ہوتا بلکہ ورثاء کو چاہئے کہ وراثت کی تقسیم سے قبل میت پر اگر مہر اور دیگر قرض ادا شدنی ہو تو اس کو ادا کیا جائے اور پھر بچ رہ جانے والے مال و جائیداد میں شریعت کے مطابق تقسیم کی جائے۔ ہند و پاک میں ایک طریقہ یہ رائج ہے کہ وفات کے بعد خواتین بیوہ کے ارد گرد جمع ہوجاتی ہیں اور اسے میت کے قریب لے جاکر مہر ادا شدنی ہوتو اسے معاف کراوتی ہیں جبکہ مہر معاف اسی صورت میں کیا جانا چاہئے جب متوفی اپنے پیچھے کوئی ترکہ نہ چھوڑا ہو۔ قرآن مجید میں ہے کہ ’اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دو پھر اگر وہ اس میں سے اپنی خوشی سے تمہیں کچھ معاف کردیں تو تم اسے مزیدار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤ۔‘ (سورۃ النساء : 4 )۔ اسی طرح سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اور خاوند والی عورتیں (تم پر حرام ہیں) سوائے ان(کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں ‘ (ان احکام حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کردیا ہے‘ اور ان کے سواء (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کردی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعہ طلب نکاح کرو پاکدامن رہتے ہوئے نہ کہ کھلی شہوت رانی کرتے ہوئے ‘ پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مہر ادا کردو اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضامند ہوجاؤ بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے (آیت: 24 ) ۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ مہر کے تعین کا حق عاقدہ یا عاقدہ کے ولی کو حاصل ہے۔ عموماً رشتہ طئے کرتے وقت اس کا تعین کرلیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اکثر مہر کے تعین کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور اس کا تعین لڑکے والے اپنے طور پر ہی کرلیتے ہیں۔ مہر کا تعین ایک ہی با پ کی بیٹیوں میں مختلف فی بھی ہوسکتا ہے اور اگر لڑکی کے خاندان میں عموماً جو مقدار طئے کی جاتی ہے اس کی مناسبت سے مہر مقرر کرلینے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ مہر کے تعین میں حسن و جمال‘ خاندانی حسب نسب کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اکثر مالدار گھرانے بھی مہر کی رقم معمولی ہی مقرر کرتے ہیں اور بعض گھرانوں میں سادگی کو اختیار کرنے’ مہر فاطمی‘ کی مثال دی جاتی ہے۔ ہم کو یہ جان لینا چاہئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحکم الہی ٰحضرت علی ابن ابی طالبؓ اور حضرت بی بی فاطمہؓ کا نکاح کیا تھا۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیلئے حضرت علیؓ سے دریافت کیا تھا اس وقت آپؓ کے پاس کچھ مال نہیں تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حضرت علیؓ اپنا سارا وقت دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی گذارا کرتے تھے اسلئے ان کے ہاں دنیاوی مال و متاع جمع نہیں ہوپایا تھا۔ اسلئے حضرت علیؓ اور حضرت بی بی فاطمہؓ کے مہر کو ہم مثال بناتے ہوئے دولتمند لوگ مہر کو قلیل نہیں رکھ سکتے۔ حال ہی میں ایک عقد نکاح میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ صنعتکار عاقد اور تاجر گھرانے کی لڑکی کا ایجاب و قبول صرف اکیاون ہزار مہر موجل پر ہوا جبکہ اسٹیج کی سجاوٹ پر 70 ہزار اور بیانڈ باجوں اور آتشبازی پر 1.30 لاکھ روپے بہادئیے گئے۔ ضیافت پر تقریباً 3-4 لاکھ روپے خرچ کئے گئے ہوں گے۔ ہماری بے حسی کی یہ حالت ہے کہ مہر کو ہم نے ادھار کردیا اور لہو و لعب کی چیزوں پر ادائیگیاں نقد کرنے لگے ہیں۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے جب یہ دیکھا کہ مہر کی اونچی مقدار مقرر کی جارہی ہے تو آپؓ نے منبر پر ٹھہر کر یہ اعلان کردیا کہ کوئی 400 درہم سے زائد مہر کی رقم مقرر نہ کرے ۔یہ فرماکر آپؓ منبر سے نیچے اترے تو قریش کی ایک خاتون نے کہا اے امیرالمومنین! کیا آپؓ نے چار سو درہم سے زیادہ کے مہر سے لوگوں کو منع فرمایا ہے؟ آپؓ نے فرمایا ‘ ہاں! خاتون نے کہا کیا آپؓ نے اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں سنا؟ فرمایا وہ کیا؟ کہا سنئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا خواہ تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو اور پہلی عورت کو بہت سا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا‘ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لے لوگے۔ (سورۃ النساء: 20 ) حضرت عمرؓ نے فرمایا یا اللہ! مجھے معاف فرما عمر سے تو ہر شخص سمجھدار ہے۔ پھر آپ واپس چلے گئے اور اسی وقت منبر پر کھڑے ہوکر لوگوں سے فرمایا اے لوگو! میں نے تمہیں چار سو درہم سے زیادہ کے مہر سے روک دیا تھا لیکن اب میں کہتا ہوں کہ جو شخص اپنے مال میں سے مہر میں جتنا چاہے دے اپنی خوشی سے جتنا مقرر کرنا چاہے مقرر کرے۔ میں نہیں روکتا۔