Saturday, April 20, 2024
Homesliderدنیائے موسیقی کے عظیم فن کار استاد بڑے غلام علی خان کا...

دنیائے موسیقی کے عظیم فن کار استاد بڑے غلام علی خان کا 119 ویں یوم پیدائش

- Advertisement -
- Advertisement -

        حیدرآباد۔ حیدرآباد ویسے تو تاریخی شہر ہے اور ارض دکن میں درجنوں  ایسی شخصیتیں موجود ہیں جو تعارف کی محتاج نہیں ۔ ہری باؤ لی روڈ، سلطان شاہی میں واقع قدیم قبرستان دائرہ میرمومن خان میں داخل ہوتے ہی چند قدم کے فاضلہ پر ایک خوب صورت مزارنظر آئے گی۔ جو برصغر ہند و پاک کے معروف و مقبول گلوکار اور موسیقی کی دنیا کے بادشاہ استاد بڑے غلام علی خان کی آخری آرام گا ہ ہے ۔

استاد بڑے غلام علی خان کے 119 ویں یوم پیدائش کے موقع پر انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج (انٹیک) کی جانب سے گلہائے عقیدت پیش کیا گیا اور فاتحہ خوانی کا بھی اہتمام کیا گیا۔ پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ استاد بڑے غلام علی خان 2اپریل 1902 کو پنجاب کے شہر قصور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تربیت اپنے والداور چچا سے حاصل کی۔ غلام علی خان نے موسیقی کے فن میں اتنا ریاض کیا کہ انھوں نے اس میدان میں اپنی الگ پہچان بنائی۔

         اس موقع پر انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج کے حیدرآباد چیاپٹر کی کنوینر انورادھا ریڈی نے کہا کہ موسیقی کو زندگی کے ہر لمحہ میں پسند کیا جاتا ہے۔ انسان چاہے خوشی کے لمحہ میں ہو یا غم کی کیفیات میں، انسان ہر لمحے میں موسیقی کو پسند کرتا ہے۔ اس کے علاوہ موسیقی ایک ایسا ذریعہ ہے جومختلف مذاہب کے ماننے والوں اور فرقوں کے درمیان یکجہتی اور یگانگت کو فروغ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استاد بڑے غلام علی خان کو آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں اور ان کی خوش کن آواز اور موسیقی کو پسند کرتے ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ عظیم تر حیدرآباد مجلس بلدیہ (جی ایچ ایم سی) نے چنددن قبل استاد بڑے غلام علی خان کی مزار کی مرمت اور تعمیر نو کا کام شروع کیا۔ استاد بڑے غلام علی خان کے پوترے کی زوجہ سمینہ نے کہا کہ میرے دادا نواب معین الدولہ کو موسیقی اور گائکی کا بہت شوق تھا۔ انھوں نے ہی استاد بڑے غلام علی خان کو حیدرآباد بلایا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے نواب ظہیر یار جنگ اور ان کی بیگم فرید جہاں نے حیدرآباد میں موسیقی کی روایت کو آگے بڑھایا۔ استاد بڑے غلام علی خان کا اکثر قیام بشیر باغ پیالس میں رہا۔ استاد بڑے غلام علی خان کودھروید، بہرام خانی، راگ بہنگ، خیال، ایک تال، درت، راگ درباری اور راگ ملہار پردسترس حاصل تھی۔

یہ بات مشہور ہے کہ بڑے غلام علی خاں کے منہ سے ایک بار ، رادھے شیام بول بھجن، سن کر مہاتما گاندھی بہت متاثر ہوئے تھے۔ مغل اعظم میں تان سین کی گائیکی کے منظر کے لیے انہوں نے ہی اپنی آواز دی تھی۔ چھ برس کی عمر میں ہی گلوکاری سے عشق کرنے والے استاد بڑے غلام علی خان نے کلاسیکی موسیقی کو نئے اسلوب سے آشنا کیا۔ موسیقی کی اس صنف خاص کو قصور پٹیالہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ استاد بڑے غلام علی خان کو حکومت ہند کی جانب سے 1962 میں سنگت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ اور پدم بھوشن سے نوازا گیا تھا۔ استاد بڑے غلام علی خان کا انتقال 25اپریل  1968 کو حیدرآباد میں ہی ہوا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ سکریٹری اربن ڈیولپمنٹ اور وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی جناب اروند کمار نے 28مارچ کو ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے اطلاع دی تھی کہ ہری باؤلی روڈ، سلطان شاہی میں واقع دائرے میر مومن میں پٹیالہ گھرانہ کے عظیم گلوکار پدما بھوشن استاد بڑے غلام علی صاحب کی مزار کی برسی (25/اپریل) کے موقع پر تزئین نو کی جارہی ہے۔ اس موقع پر استاد بڑے غلام علی خان کے پوترے کی زوجہ سمینہ ان کے فرزند فصلِ علی خان اور دکن آرکائیو کے بلاگر صبغت خان کے علاوہ دیگر لوگ موجود تھے۔

عبدالرحمن پاشا