Thursday, July 3, 2025
Homeبین الاقوامیدنیا میں 122 ممالک کے قرض انتہائی سنگین صورت حال اختیار کرگئے

دنیا میں 122 ممالک کے قرض انتہائی سنگین صورت حال اختیار کرگئے

- Advertisement -
- Advertisement -

برلن۔ ہر شخص قرض سے پریشان رہتا ہے لیکن اب خبر اس سے بھی پریشان کن ہے کہ جس ملک کے آپ باشندے ہیں شاید وہ بھی بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہواہے۔دنیا بھر میں اس وقت اکثر ممالک انتہائی مقروض ہیں جتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔ یہ صورت حال جلد بہتر ہوتی نظر نہیں آتی۔ اس وقت 122 ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جبکہ افریقی ممالک کی حالت تو انتہائی بری ہے۔

 عالمی سطح پر مختلف ممالک کو درپیش قرضوں کی انتہائی سنگین صورت حال سے متعلق یہ تفصیلات قرض رپورٹ 2019ءمیں فراہم کی گئی ہیں، جو جوبلی جرمنی نامی ادارے نے جرمن دارالحکومت برلن میں پیش کی۔

اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں ماہرین کی طرف سے دنیا کے 154 ممالک کو درپیش مالیاتی مسائل کا جائزہ لیا گیا، جن میں سے 122 ممالک ’خطرناک حد تک مقروض‘ پائے گئے ہیں ۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ 2017ءمیں خطرناک حد تک مقروض ممالک کی تعداد 119 تھی، جو 2019ءمیں مزید تین ممالک کے اضافے کے ساتھ 122 ہو چکی ہے۔

جوبلی جرمنی ایک ایسی تنظیم ہے، جس میں سول سوسائٹی اور کلیسائی تنظیموں کے نمائندوں کے کئی گروپ شامل ہیں۔ یہ تنظیم اپنے طور پر تجزیوں، لابی اور مشاورت کے ذریعہ اس کوشش میں ہے کہ عالمی سطح پر بے تحاشہ قرضوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل ختم ہونا چاہییں۔

اس رپورٹ کے مطابق دنیا کا سب سے پسماندہ اورکم ترقی یافتہ براعظم سمجھے جانے والے افریقہ میں تو بہت سے ممالک کو درپیش قرضوں کی بحرانی صورت حال اتنی سنگین ہو چکی ہے کہ اب ان ممالک نے اپنے ذمے قرضوں کی واپسی کے لیے پریشان ہونا اور کوئی کوششیں کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔

جوبلی جرمنی کے ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر قرضوں کی یہ صورت حال اتنی ناامید کر دینے والی ہے کہ اس کی وجہ سے ہر جگہ اندھیرا ہی نظر آتا ہے۔ مزید تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ یہ صورت حال مستقبل قریب میں بہتر ہوتی نظر نہیں آتی اور یہ رجحان بظاہر جاری رہے گا۔

 اس رپورٹ کے مصنفین کے مطابق قرضوں کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر اس پریشان کن صورت حال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ضرورت مند اورغریب ممالک کو مختلف عالمی تنظیموں اور امیر ممالک کی طرف سے جو رقوم قرض کے طور پر فراہم کی جاتی ہیں، ان کے لیے شرح سود اتنی کم رکھی جاتی ہے کہ ان قرضوں کو سستے قرضوں کے طور پر بیچا جاتا ہے۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ ایسے سستے قرضے لینے والے بہت سے ممالک ایسا کرتے ہوئے اپنے ممکنہ وسائل سے بھی زیادہ بڑی چھلانگ لگا لیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایسے جال میں پھنس کر رہ جاتے ہیں، جس سے نکلنا ان کے لئے کبھی ممکن ہی نہیں ہوتا۔

برلن میں جوبلی جرمنی کے ایک مرکزی عہدیدار کلاوس شِلڈر نےمیڈیا سے کہا ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر مختلف ممالک کی مدد کے لئے نہ صرف دیوالیہ پن کے خلاف ایک موثر نظام کی ضرورت ہے بلکہ قرض دہندہ اداروں اور امیر ریاستوں کو انتہائی مقروض ممالک کو نئے قرضے دینے پر پابندی لگاتے ہوئے ان کے ذمے زیادہ تر قرضے معاف بھی کر دینا چاہییں۔ شِلڈر نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ افریقہ میں موزمبیق جیسے ممالک کو انتہائی ڈرامائی صورت حال کا سامنا ہے۔ اس ملک کی حالت اتنی خراب اور وہاں مالی وسائل کی اتنی کمی ہے کہ مارچ کے وسط میں آنے والے ایک تباہ کن طوفان کے بعد سے وہاں قریب دو ملین متاثرہ انسانوں کی کوئی قابل ذکر مدد نہیں کی جا سکی۔

اس رپورٹ کے مطابق سن 2000ء سے لے کر 2017ء تک چین نے براعظم افریقہ کے ممالک کو ان کے ہاں بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر اور دیگر منصوبوں کے لیے جتنے قرضے دیے، ان کی مجموعی مالیت 143 ارب یورو یا 161 ارب امریکی ڈالر ہے۔ اس کے باوجود چین افریقہ کے قرضوں سے متعلق مسائل کے حوالے سے کوئی بہت برا ملک اس لئے نہیں ہے کہ بیجنگ حکومت اسی عرصے میں بہت سے افریقی ممالک کے ذمے بے تحاشہ قرضے معاف بھی کر چکی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے 122 انتہائی مقروض ممالک کو اس وقت جن حالات کا سامنا ہے، ان میں سے زیادہ تر مسائل کی وجہ عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف اور یورپی ترقیاتی فنڈ جیسے اداروں کی طرف سے دیے جانے والے وہ قرضے ہیں، جو آج بھی روایتی طریقہ کار اور شرائط کے تحت دیے جاتے ہیں۔ افریقہ کے علاوہ ایشیا میں منگولیا، بحرین اور لبنان اور جنوبی ایشیا میں بھوٹان اور پاکستان جیسے ممالک کو بھی اس وقت ریاستی قرضوں کی انتہائی سنگین صورت حال کا سامنا ہے ۔