نئی دہلی۔ سپریم کورٹ میں آج قومی دارالحکومت دہلی نے فضائی آلودگی کی خطرناک صورتحال پر عدالت کے حکم کی تعمیل رپورٹ داخل کی لیکن مرکزی حکومت نے اسے داخل نہیں کیا۔مرکزی حکومت نے کہا کہ وہ آلودگی کی صورتحال اور اس سے نمٹنے کے اقدامات پر ریاستی حکومتوں سے معلومات لینے کے بعد بنچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
چیف جسٹس این۔ وی رمنا کی سربراہی والی عدالت عظمیٰ کی بنچ اسکول کے طالب علم آدتیہ دوبے کی طرف سے دائر مفاد عامہ کی عرضی کی سماعت کر رہی ہے ۔سپریم کورٹ نے حال ہی میں ہوئی سماعت کے دوران مرکز، دہلی اور پڑوسی ریاستی حکومتوں کو سیاست اور حکومت کی حد سے بالاتر ہوکر آلودگی کوکم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا تھا کہ بڑھتی ہوئی آلودگی کے باعث ہم گھروں میں ماسک لگانے پر مجبور ہیں۔ سپریم کورٹ نے دہلی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ صنعتی یونٹس، کوئلے سے چلنے والے پاور جنریشن پلانٹس اور سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں دہلی میں فضائی آلودگی کی خطرناک حالت کے ذمہ دار ہیں۔ تمام متعلقہ ریاستوں کی ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو آلودگی کوکم کرنے کے لیے ورک فرام ہوم سمیت تمام اقدامات کو فوری طور پر یقینی بنانے کا بندوبست کرنا چاہیے ۔
سپریم کورٹ کے حکم کے پیش نظر دہلی حکومت نے ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہوئے کئی اقدامات کئے تھے ۔ اس نے اپنے ملازمین کے لیے گھروں سے خدمات انجام دینے کے علاوہ اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے اگلے احکامات تک بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ سڑکوں پر پانی کے چھڑکاؤ کے انتظامات کیے گئے تھے ۔ تعمیراتی سرگرمیوں پر جزوی پابندی تھی۔
بنچ نے کہا تھا کہ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کی جانب سے بار بار پرالی جلانے کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے اور دہلی میں فضائی آلودگی خطرناک صورت تک بڑھنے کا شور مچا یا جاتا ہے ، لیکن مختلف رپورٹس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ آلودگی کی سب سے بڑی وجہ پرالی جلانا نہیں بلکہ سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں، تعمیرات، عمارتوں اور دیگر تعمیراتی کاموں اور پاور جنریشن پلانٹس کی وجہ سے اٹھنے والی گردوغبار سے جس سے74 فیصد آلودگی پھیلتی ہے ۔تاہم سپریم کورٹ نے ہریانہ اور پنجاب حکومتوں سے کہا کہ وہ اپنے کسانوں کو کم ازکم دو ہفتوں تک پرالی جلانے سے روکنے کے لیے راضی کریں۔