Sunday, May 11, 2025
Homeٹرینڈنگذات پات کا اتحاد ہندوتوا کے آگے ناکام

ذات پات کا اتحاد ہندوتوا کے آگے ناکام

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی ۔ نریندرمودی کو اقتدار کی کرسی سے دور رکھنے کےلئے تمام اپوزیشن پارٹیوں نے اپنی ریاستی عوام کے مزاج اور ماحول کے اعتبار سے اپنی اپنی حکمت عملیاں تیار کی تھیں جبکہ اترپردیش میں سماج وادی پارٹی اوربہو جن سماج پارٹی نے اپنے برسوں قدیم اختلافات کو پس پست ڈالتے ہوئے اتحاد کیا تھا لیکن ذات پات کی بنیاد پر بنا یہ اتحاد بی جے پی اور این ڈی اے کے ہندوتوا ایجنڈے کے خلاف ناکام رہا۔

انتخاب میں اتر پردیش میں ایس پی۔بی ایس پی۔آر ایل ڈی اتحاد کو جس ذات پات کے فارمولے سے کامیابی کی امید تھی وہ امید بر نہیں آئی  اور ان پارٹیوں کےسبھی فارمولے ناکام ہوگئے ۔ مہاگٹھ بندھن جنوری سے وجود میں آیا اور کہا گیا کہ یہ اتر پردیش میں بی جے پی کو شکست دے کر اقتدار میں اس کی واپسی کی راہ روکے گا۔ نتائج نے اتحاد ناکام  بنا دیا ہے۔ مودی اور بی جے پی کے ہندوتوا اور راشٹرواد نے ان کے ذات پات والے فارمولے کو منہدم کر دیا۔

اپنے خاندانی جھگڑوں سے پریشان سماجوادی پارٹی قیادت نے برسوں پرانی عداوت کو پس پشت ڈالتے   ہوئے بی ایس پی سے اتحاد کیا۔ اس کا فارمولہ صاف تھا۔ 40 فیصد پسماندہ (او بی سی) اور 21 فیصد دلت ایک ساتھ آ کر ریاست میں نئی تاریخ لکھیں گے۔

2014 کے لوک سبھا انتخاب میں ایک بھی نشست نہیں جیتنے والی اور 2017 کے اسمبلی انتخاب میں محض 19 نشستیں  جیتنے والی بی ایس پی کو بھی یہ فارمولہ جادوئی نظر آیا اور اس نے اتحاد پر اتفاق کیا لیکن اس کے برعکس بی جے پی نے غیر یادو او بی سی اور غیر جاٹو دلت پر اپنی توجہ مرکوز کی اور ان کے سبھی جوڑ توڑ کو بگاڑ دیا۔ پارٹی نے ان ذاتوں کو اپنی طرف کھینچ کر فارمولے کو ہی بدل دیا۔ رہی سہی کسر وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ کہہ کر ذات پات کی جنگ کو طبقاتی جنگ میں بدل دیا کہ میری ذات غریب کی ذات ہے۔  اس کے علاوہ چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے جارحانہ ہندوتوا مہم کے ذریعہ بھی ذات پات کی گول بندی کو مزید کمزور بنایا۔

انتخابی نتائج نے نہ صرف ذات کی سیاست کی طاقت کو منہدم کیا ہے بلکہ اتحاد کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ نتائج سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ ایس پی اور بی ایس پی ایک دوسرے کو اپنے ووٹ ٹرانسفر کرنے میں ناکام رہیں اور دلتوں کے ساتھ  او بی سی کے درمیان کا کشیدہ سماجی فارمولہ سیاست پر بھاری پڑ گیا۔بی ایس پی کو تو پھر بھی اتحاد سے فائدہ ہوا نقصان ماجوادی پارٹی کو ہوا ہے۔ یادو خاندان کے دو رکن بدایوں سے دھرمیندر یادو اور فیروز آباد سے اکشے یادو انتخاب ہار گئے ہیں۔

بی ایس پی اور راشٹریہ لوک دل کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ بطور پارٹی صدر اکھلیش یادو کا تھا۔ ملائم سنگھ یادو نے اس پر اعتراض بھی ظاہر کیا تھا۔ یہ پہلا انتخاب ہے جب اکھلیش نے کوئی انتخاب اپنے والد ملائم سنگھ یادو کی رہنمائی کے بغیر لڑا۔ ملائم اپنے انتخابی حلقہ میں پوری تک ہی سمٹے رہے۔اب اس فیصلہ پر سوال اٹھ سکتے ہیں اورمستقبل میں ہو سکتا ہے کہ اکھلیش کو اپنی پارٹی میں ہی دقت کا سامنا کرنا پڑے۔