کولکتہ ۔ ایودھیا کے فیصلے پر سپریم کورٹ کے سابق جج اے کے گنگولی نے کہا کہ اس معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ غلط ہوا ہے۔کولکتہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ریٹائرڈ جج اے کے گنگولی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلے سے پریشان ہیں۔
جسٹس گنگولی نے کہا کہ کوئی بھی کہے گا کہ ایودھیا میں مسجد گرائی گئی تھی ،یہ سب کو پتے ہے ۔حکومت اس مسجد کو بچانا چاہتی تھی۔انہوں نے کہا کہ ہمارا آئین جب وجود میں آیا تو یہاں نمازپڑھی جا رہی تھی۔ایک ایسی جگہ جہاں نماز پڑھی جارہی تھی ، جہاں پر مسجد تھی، اب اس جگہ کو سپریم کورٹ نے مندر کے لئے دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ آئین کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے فیصلے کو سمجھنے میں مجھے تھوڑی دقت ہو رہی ہے، یہ فیصلہ میری سمجھ سے بالا تر ہے ۔
جسٹس گنگولی نے کہا کہ مسجد تقریبا ً500 سالوں سے تھی۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے یہ نہیں پایاکہ مسجد، مندر توڑکر بنائی گئی تھی۔اس کے علاوہ اس بات کے بھی آثار قدیمہ سے ثبوت نہیں ہیں کہ مسجد کے نیچے مندر تھا۔وہاں پر کوئی ڈھانچہ ضرور تھا۔لیکن اُس ڈھانچے کے ہندو ڈھانچہ ہونے کے ثبوت نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ جسٹس گنگولی وہی ہیں، جنہوں نے 2012 میں ٹو جی اسپیکٹرم الاٹمنٹ معاملے میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔جسٹس گنگولی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ سب کے حقوق کی حفاظت کرے، اس میں اقلیتی طبقے بھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس ملک کے لوگ کیا دیکھیں گے ،یہاں ایک مسجد تھی، جسے 1992 میں توڑ دیا گیا ، اس زمین پر سپریم کورٹ ایک مندر بنانے کی اجازت دی ہے ۔ کن ثبوتوں کی بنیاد پر یہ فیصلہ لیا گیا ہے یہ اس آستھا کی بنیاد پر دیا گیا کہ یہ زمین رام للا سے جڑی ہوئی تھی، لیکن کیا آستھا کی بنیاد پر ایسا کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس گنگولی نے آگے کہا کہ جو ثبوت ملے ہیں اور جو فیصلہ آیا ہے، اس سے میں اپنے کو مطمئن نہیں کر پا رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ان کی سمجھ میں کچھ خامیاں ہوں، لیکن ان کے خیال سے اس فیصلے میں بہت سے سوالات کے جوابات نہیں دئیے گئے ہیں۔