Sunday, May 11, 2025
Homeٹرینڈنگسعودی خاندان نے 100 سال تک نوادرات جمع کرتے ہوئے شاندار میوزیم...

سعودی خاندان نے 100 سال تک نوادرات جمع کرتے ہوئے شاندار میوزیم بنادیا

- Advertisement -
- Advertisement -

ریاض ۔ کہاوت مشہور ہے کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے اور دریا، دریا میں ملنے سے سمندر وجود میں آتا  ہے اس کہاوت کے مصداق ایسا ہی کچھ ایک سعودی خاندان کے ساتھ ہوا جس نے 100برس تک نوادرات جمع کرکے شاندار عجائب گھر قائم کیا ہے۔تفصیلات کے مطابق عجائب گھر کا نام  ‘‘ متحف الرشید’’  رکھا گیا ہے۔ اس کے مالک خالد عبداللہ الرشید نے کہا ہے کہ تقریباً 100 برس سے زائد عرصے سے ہمارے خاندان کے افراد سعودی صوبے قصیم کے معروف شہر عنیزہ میں نوادر جمع کرتے رہے ہیں۔ نوادرات جمع کرنا ہمارا خاندانی شوق ہے۔ آج تک ہم اس سے وفاداری نبھا رہے ہیں۔

خالد عبداللہ الرشید نے مزید کہا ہے کہ ہمارے یہاں جب 15ہزار سے زیادہ نوادر جمع ہوگئے تو ہمیں فکر ہوئی کہ اب ہمارے گھر کا کیا حال ہوگا۔ ایک طرح سے ہمارا پورا گھر نوادرات کے لیے مختص ہوکر رہ گیا۔ نوادرات جمع کرنے کا سلسلہ پھر بھی جاری تھا۔ اس صورتحال کے پیش نظر ہم لوگوں نے  1998 میں خانگی عجائب گھر قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے الرشید عجائب گھر کا نام دیا گیا۔ گھر میں موجود بہت سارے نوادرات عجائب گھر میں منتقل کردیئے گئے۔

خالد الرشید کے مطابق  ایک صدی کے دوران خاندان کے افراد نے زرعی آلات، بندوقیں ،انواع و اقسام کے ہتھیار جمع کرلیے تھے۔ ہمارے گھر والے اور عنیزہ کے باشندے نوادرات کے شائقین سے یہ سب کچھ جمع کرتے رہتے تھے۔عجائب گھر قائم کرنے کے کئی مقاصد ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ آباؤ اجداد کا تاریخی ورثہ محفوظ ہوجائے۔ دوسرا ہدف یہ ہے کہ نئی نسلوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ ہمارے بزرگ ماضی میں کس طرح زندگی گزارتے تھے۔ ان کے رہن سہن کے طورطریقے کیا تھے۔

عجائب گھر میں ایک بندوق 150برس قدیم ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں 60 برس پرانی زرعی مشینیں بھی ہیں۔الرشید نے مزید کہا ہے کہ ہمارے خاندان کی خواتین، مرد اور بچوں کی دلچسپی کا دائرہ نوادرات جمع کرنے تک ہی محدود نہیں۔ ہمارا خاندان کاروبار، دروازوں پر نام اور پھول بوٹے بنانے نیز ہر طرح کی کھیتی باڑی اور دستکاری میں بھی دسترس رکھتا ہے ۔ان کے مطابق اس عجائب گھر میں ہر قسم کی چیزیں پڑی ہوئی ہیں۔  الرشید عجائب گھر سعودی عرب کے70 قومی میلوں میں شرکت کرچکا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔