عدالت عظمیٰ نےبابری مسجد کی جگہ کے حصول پر 1994 میں یہ رولنگ دی تھی کہ حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس زمین کو حاصل کرے جس پر پہلے سے مسجد تعمیر تھی۔ وسیع تر بنچ سے رجوع کرنے کی درخواست کے استرداد کے لئے یہ جواز پیش کیا گیا کہ رجوع کرنے کی صورت میں ایودھیا میں متنازعہ اراضی کا مقدمہ تعطل کا شکار ہوجاتا
نئی دہلی۔سپریم کورٹ نے آج اپنے 1994 کی اپنی رولنگ پر نظر ثانی کرنے سے انکار کردیا کہ حکومت وہ زمین حاصل کرسکتی ہے جس پر مسجد تعمیر کی گئی۔ عدالت عظمیٰ نے اس وقت یہ رولنگ دی تھی کہ نمازیں یا عبادتیں کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہیں اور اس کے لئے ایک مسجد ضروری نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اس رولنگ کو وسیع تر بنچ سے رجوع کرنے سے انکار کردیا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اگر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ فیصلہ پر نظرثانی کی جائے تو اس سے ایودھیا تنازعہ مقدمہ کی سماعت میں تاخیر کا شکار ہوجائے گی جس کی سماعت 29 اکتوبر کو ہوگی۔ سپریم کورٹ نے 1994 میں یہ کہا تھا کہ نماز کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے اور یہ کہ ایک مسجد اس کے لئے ضروری نہیں ہے۔ مسلم فریقین نے کہا کہ یہ فیصلہ ان کے لئے غیر واجبی ہے اور یہ کہ یہ دہوں قدیم فیصلہ ایودھیا میں متنازعہ زمین میں کلیدی رول ادا کرے گاجسے 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔عدالت العالیہ نے اس قطعہ اراضی کو جس پر بابری مسجد کھڑی تھی ہندو اور مسلم فریقوں میں بانٹ دیا تھااور اصل حصہ ہندؤں کو دے دیا گیا۔چھ صدیوں قدیم بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 میں ہندؤں کی متشدد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کارسیوکوں نے منہدم کردیا تھا۔ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو ہندؤں اور مسلمانوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیالنج کیاگیا۔ اگر عدالت عظمیٰ اپنی 1994 کی رولنگ پر وسیع تر بنچ پر نظر ثانی کا فیصلہ کرتی تو ایودھیا میں بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمہ کی یکسوئی میں تاخیر ہوجاتی اور برسراقتدار بی جے پی کو اپنے ایک اہم انتخابی وعدہ کی عدم تکمیل پر ہندؤ ں کے متشدد گروپوں کے عتاب کا سامنا کرنا پڑتا۔