حیدرآباد ۔ پولیس کانسٹبل اور سب انسپکٹرس کے عہدوں کے حصول کے لیے عوام کا ہجوم ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ درخواست گزاروں میں کثیر تعداد کن افراد کی ہے ؟ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ سب انسپکٹر کے عہدے کے لیے ڈگری اور کانسٹیبل کے عہدے کے لیے انٹرمیڈیٹ کی تعلیمی قابلیت کافی ہے لیکن مذکورہ مخلوعہ جائیدادوں کے لئے درخواست دینے والوں کی کثیر تعداد میں انجینئرنگ طلبہ اور پوسٹ گریجویٹ طلبہ موجود ہیں۔
مارکیٹ میں موزوں ملازمت نہ ہونے کی وجہ سے پیشہ وارانہ کو رسس سے تعلیم مکمل کرنے کے باوجود انجینئرنگ اور پوسٹ گریجویٹ طلبہ سب انسپکٹر اور کانسٹیبل کے عہدوں کے لئے نہ صرف درخواست دے چکے ہیں بلکہ وہ پہلے مرحلے میں منعقدہ ہونے والے جسمانی ساخت کے امتحان میں کامیابی بھی حاصل کر لی ہے اور اب تحریری امتحان کے لیے تیاری کررہے ہیں۔
درخواست گزاروں میں 3961 ایسے افراد ہیں جن کی تعلیمی قابلیت پی جی ہے جو کہ انجینئرنگ شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ سب انسپکٹر کی جائیداد کے لیے درخواست دینے والوں کی 90 فیصد تعداد انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمیونیکیشن کے شعبے سے تعلیم مکمل کر چکی ۔ پہلے مرحلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد منتخب امیدواروں کی تعداد 1908 ہے جس میں 1866 کا تعلق انجینئرنگ گریجویٹ سے ہے کیونکہ انہیں مارکیٹ میں اپنے متعلقہ مضمون یا نصاب کے ضمن میں کوئی بہتر اور موزوں ملازمت دستیاب نہیں ہو رہی ہے اس لیے انہوں نے محکمہ پولیس کی سمت رخ کیا ہے ۔
ریاست تلنگانہ کی حکومت پولیس اور خاص کر مذکورہ دونوں عہدوں پر منتخب ہونے والے افراد کو بہترین تنخواہ فراہم کرتی ہے جیسا کہ پولیس کانسٹیبل کی ماہانہ تنخواہ 35 ہزار روپے ہے اس کے علاوہ انہیں صحت ،سفر اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں ۔اسی طرح سب انسپکٹر کی ماہانہ تنخواہ 45 ہزار روپے ہے ۔اس کے ساتھ دیگر مراعات بھی دی جاتی ہیں ۔لیکن یہاں یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ مذکورہ عہدوں پر فائز ہونے کے لیے پہلے مرحلے کے امتحان میں کامیاب ہونے والوں کے لیے ملازمت کا حصول آسان نہیں ہے کیونکہ سب انسپکٹر کے 1217 مخلوقات جائیدادوں کے لئے 54,118 امیدوار اپنی قسمت آزما رہے ہیں ۔اسی طرح 18458کانسٹبل کے عہدوں کے لیے 1,71,253 بی سی امیدوار میدان میں ہیں۔
انجینئرنگ شعبے کو پہلے ہی کئی منفی پہلوؤں کی وجہ سے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اب اس طرح انجینئرنگ شعبے سے فارغ التحصیل طلبہ اپنے شعبے کو چھوڑ کر دیگر محکموں اور شعبہ جات میں ملازمت کے متلاشیان میں شامل ہو چکے ہیں جس سے انجینئرنگ شعبے پر مزید سیاہ داغ لگ رہے ہیں۔