ابوظہبی ۔ یہاں ایک مقامی عدالت میں زیر سماعت خانگی مقدمے نے عوام کو حیران کر دیا کیونکہ خاتون جن باتوں پر شوہر سے خلع مطالبہ کیا ہے وہ حیران کن ہیں جیسا کہ اس کا شوہر ہنس کر بات نہیں کرتا، غصہ کرتا ہے اور نہ ہی تعریف۔ وہ احساسات سے عاری ہے۔ گھر سے باہر کے تمام امور بہتر طور پر انجام دیتا ہے لیکن گھر میں آتے ہی وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ اس زندگی سے تنگ آچکی ، اس لئے علیحدگی چاہئے۔
امارات ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق ابوظہبی کی عدالت میں پیش ہوئے مقدمہ کی سماعت کے دوران قاضی نے خاتون سے علیحدگی کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا میری شادی کو 10 برس گزر چکے ، اس عرصے میں مجھے یاد نہیں کہ میرے شوہر نے کبھی مجھ سے ہنس کر بات کی ہو یا میری تعریف میں چند جملے کہے ہوں جس سے یہ احساس ہو کہ میں صنف نازک ہوں۔ خاتون نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کس برف کی سل سے میری شادی ہوئی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ ہماری 10 سالہ ازدواجی زندگی میں کوئی لمحہ ایسا آیا ہو جب میرے شوہر نے مجھ پر ہاتھ اٹھاناتو دورکی بات غصہ سے کچھ کہا بھی ہو۔
خاتون کا موقف ہے میرا شوہر اگرچہ گھر کے تمام اخراجات بخوبی پورے کرتا ہے وہ باہر کے تمام امور بھی انجام دیتا ہے لیکن جب گھر میں آتا ہے تو اس طرح جیسا کوئی متکبر و مغرور شخص ہو جس سے کوئی بھی اس کی مرضی کے خلاف بات کرنا تو دورکی بات اس سے مسکراہٹ کی توقع بھی نہیں کرسکتا۔ ایسی حالت میں سخت دباؤ کا شکار ہو جاتی ہوں خاص کر جب شوہر کوگھر سے باہر دوسروں سے ہنس ہنس کر باتیں کرتا دیکھتی ہوں یا ٹیلی فون پر لمبی اور خوبصورت گفتگوکرتے ہوئی سنتی ہوں تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ میرا ہی شوہر ہے جو ہمیشہ خاموش رہتا ہے۔
مقدمہ کی سماعت کے دوران خاتون نے مزید کہا کہ میں نے بڑی کوشش کی کہ گھر کے ماحول کو اچھا رکھوں لیکن میرے شوہر کا رویہ ہمیشہ مجھ سے بیزار رہتا ہے۔ کوشش کی کہ حالات کو بدل دوں،اپنا گھر چھوڑا ، دوست اور پڑھائی چھوڑی لیکن سب کچھ چھوڑنے کے باوجود مجھے کچھ نہ ملا اسی لئے اب میں مزید اس کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتی۔
قاضی نے شوہر سے جواب طلب کیا جس پر اس نے کہا کہ بطور گھر کے سربراہ کے مجھ پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ میں بخوبی ادا کرتا ہوں۔ میری ذات سے کبھی اس پر کوئی زیادتی نہیں ہوئی۔ گھر میں کسی قسم کی قید وقدغن عائد نہیں کی ہوئی اس کے باوجود میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میرے مزاج کو بنیاد بنا کر وہ خلع کا مطالبہ کیوں کر رہی ہے۔
قاضی نے خاتون کی شکایت سننے کے بعد اسے نصیحت کرتے ہوئے اصلاح کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ گھر برباد کرنے میں کوئی وقت نہیں لگتا اس لئے معمولی باتوں کو فراموش کر کے آگے بڑھنا چاہئے۔ شوہر نے کہاکہ وہ علیحدگی نہیں چاہتا اس لئے اہلیہ کو کچھ وقت سوچنے کا دیا جائے تاکہ وہ نفسیاتی الجھن سے باہر نکل آئے اور اس کے بعد جو فیصلہ کرے ہمیں قبول ہو گا۔عدالت نے مقدمہ کو صلح کمیٹی کے حوالے کردیا جوڑے کو طلب کیا گیا اور ان کے مابین صلح کی کوشش کی گئی جو کامیاب رہی۔