پٹنہ۔ شہریت ترمیمی بل جیسے فرقہ پرست اور ملک مخالف قوانین کے تباہ کن اور خطرناک نتائج سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اس کی مخالفت کرنا ضروری ہے ۔یہ بات جموں و کشمیر کے معاملے میں مرکزی حکومت کے یکطرفہ فیصلے کے خلاف ملازمت سے استعفیٰ دینے والے آئی اے ایس عہدیدار کنن گوپی ناتھن نے یہاں ایک تقریب میں کہی۔
انہوں نے کہاکہ انسداد دہشت گردی کے نام پر موجودہ حکومت نے جس طرح عوام کو سازش کا شکار بنایا ہے وہ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ ملک کے غریب عوام کے لئے بھی خطرناک ہے ، اس لئے شہریت ترمیمی بل اوراین آر سی اور جیسے سیاہ قوانین کے خلاف عوام کواحتجاج کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ این آرسی سے بچنے کے لئے دستاویزات جمع کرنے کے بجائے اس کی پرزور مخالفت کی جانی چاہئے ۔ عوام کی شہریت حکومت طے نہیں کر سکتی۔ ہمیں یہ عزم کرنا چاہئے کہ ہم اپنے ملک کو فرقہ واریت کی بنیاد پرتقسیم نہیں ہونے دیں گے اور کسی ایک فرقہ کو اس کا نشانہ نہیں بننے دیں گے ۔
انہوں نے این آر سی شہریت ترمیمی بل اور ڈٹنشن کیمپ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار سنبھالنے والے چند افراد سماج کی گنگا جمنی تہذیب کو تباہی کے بعد ہندو راشٹر کے راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔ وہ اکثریتی اور اقلیتی آبادی کی بنیاد پر ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ شہریت ترمیمی بل اور این آر سی کی پیشکش بھی اسی سازش کاحصہ ہے ۔ اب ہمیں اس کے نفاذکا انتظار کرنے کے بجائے اس کی سخت مخالفت کرنی چاہئے ، احتجاج کے علاوہ ہمارے سامنے کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
مسٹر گوپی ناتھن نے کہا کہ سوالات جمہوریت کی جان ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے سیاہ قوانین کے خلاف ملک بھر میں سناٹاچھایاہوا ہے اورہر کوئی زبان کھولنے سے ڈر رہاہے ۔ مرکزی حکومت کالا دھن اور دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر جمہوری قوانین میں ترمیم کر کے سیاہ قوانین وضع کرنا چاہتی ہے ۔ شہریت ترمیمی بل اور این آر سی کے نام پر مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش کی جارہی ہے ۔ اس کے لئے ملک بھر میں ڈٹنشن کیمپ بنائے جارہے ہیں۔
گوپی ناتھن نے الزام لگایا کہ ملک کا وزیر داخلہ علی الاعلان فرقہ پرستی کا کارڈ کھیل رہاہے اورسبھی ریاستوں کو ایڈوائزری جار ی کر کے ڈٹنشن کیمپ بنانے کا حکم دے رہاہے۔ لیکن افسو س اس بات کا ہے کہ ملک کے عوام خاموش ہیں، میڈیا اور عوام سوالات کرنے کے بجائے اس کے نفاذ کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ بلا تفریق ایسے سیاہ قوانین کی ہر سطح پر مخالفت کرنی چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کی اس منشا پر خوف زدہ ہونے کے بجائے اس کے خلاف احتجاج کرنا ہوگا۔
انہہوں نے کہاکہ جموں وکشمیر کے80 لاکھ عوام کے بنیادی حقوق پر براہ راست حملے کے خلاف ہم نے اپنی ملازمت چھوڑ دی، وہاں کے منتخب ایم پی اور ایم ایل اے کوبھی نہیں بخشا گیا۔ انہوں نے حکومت کے اس جوازکی بھی سخت مذمت کی اور کہا کہ دہشت گردی کے نام پر یہ عوام کے بنیادی حقوق پر براہ راست حملہ ہے ۔ایسے سیاہ قوانین کے خلاف ہمیں آواز بلند کرنی ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ شہریت ترمیمی بل اور این آر سی سے بچاؤ کے لئے دستاویزات جمع کرنے کے چکر میں پڑنے کے بجائے اس کی پرزور مخالفت ہونی چاہئے ورنہ جس دن شہریت کھو دیں گے تو احتجاج کے لائق بھی نہ ہوں گے ۔گوپی ناتھن نے کہا کہ آپ ووٹ کسی کو بھی دیں لیکن سوال ضرور کریں اور اس بات کاعزم کریں کہ ہم اس کے خلاف احتجاج کرتے رہیں گے ، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
سمینارکی نظامت محمد غالب نے کی جبکہ صدارت ڈی ایم دیواکر نے انجام دی۔ اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ چلا جس میں اس موضوع سے متعلق کئی چبھتے ہوئے سوالات کئے گئے ۔ سوالات کرنے والوں میں کاشف یونس، انوارالہدیٰ، روی یادو، روبی کماری، وغیرہ کے نام ہیں۔