Wednesday, April 23, 2025
Homeٹرینڈنگشیطانی قوتوں کو جسم میں داخل نہ ہونے سے لیکر سیلفی تک...

شیطانی قوتوں کو جسم میں داخل نہ ہونے سے لیکر سیلفی تک ، لپ اسٹک کی صدیوں قدیم کہانی

آپ لپ اسٹک کیوں لگاتی ہیں؟

- Advertisement -
- Advertisement -

ایمسٹرڈم ۔خواتین کے بن سنورنے میں ویسے تو کئی ایک قسم کے میک ایپ کے انداز اور طریقے موجود ہیں اورآئے دن میں کچھ نہ کچھ تبدیلیا ں ہوتی رہتی ہیں لیکن ان میں ایک مشترکہ چیز ہونٹوں پرلالی لگانا صدیوں پرانا انداز ہے لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ لپ اسٹک لگانے کے درپردہ مقصد میک ایپ نہیں بلکہ شیطانی طاقتوں سے خود کو محفوظ رکھنے کا عقیدہ تھا ۔ اس وقت یہ عقیدہ تھا کہ ہونٹوں پر رنگ لگانے سے شیطانی قوتیں انسان کے جسم میں داخل نہیں ہو سکتیں۔

نئی تحقیق میں یہ انکشافات ہوئے ہیں کہ قدیم یونانی دور میں جسم فروش خواتین ہونٹوں کو سرخ کیا کرتی تھیں۔پہلی مرتبہ 1883ء میں لِپ اسٹک کی موجودہ شکل کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم میں ہونے والی ایک عالمی نمائش میں متعارف کروایا گیا تھا۔ہزاروں سال پہلے مصری تہذیب میں فراعین کی ملکائیں بھی ہونٹوں پر سرخ رنگ کا استعمال کرتی تھیں۔ ان میں قلو پطرہ اور نفراتیتی بھی شامل ہیں۔ اس وقت سرخ رنگ کو چھوٹی چھوٹی ڈبیوں میں محفوظ رکھا جاتا تھا اور انگلی یا پھر برش کی مدد سے ہونٹوں پر لگایا جاتا تھا۔

اس وقت یہ عقیدہ تھا کہ ہونٹوں پر رنگ لگانے سے شیطانی قوتیں انسان کے جسم میں نہیں گھس سکتیں۔قدیم یونانی دور میں جسم فروش خواتین ہونٹوں کو سرخ کیا کرتی تھیں۔ رومن سلطنت کی امراء خود کو غریب عوام سے الگ تھلک رکھنے کے لیے ہونٹوں پر سرخ رنگ کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سولہویں صدی میں انگلستان میں سفید پاوڈر سے چہرے کو سفید اور سرخ رنگ سے ہونٹ رنگنا اشرافیہ طبقے کا معروف فیشن تھا۔

تاریخ میں چہرے پر سرخ رنگ کا استعمال مختلف طریقوں سے ہوتا رہا ہے۔ پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن بھی چہرے پر سرخ رنگ کا استعمال کرتے تھے۔لپ اسٹک کی موجودہ شکل پہلی مرتبہ 136 برس قبل متعارف کروائی گئی تھی ۔ ایمسٹرڈم کی نمائش کے چند ماہ بعد لِپ اسٹک کی تجارتی بنیاد پر دریافت میں پیرس کے خوشبو ساز ادارے کے دو ماہرینِ کاسمیٹک شامل تھے۔1884ء میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں پہلی مرتبہ لِپ اسٹک کو میک اپ کے ایک اہم جزو کے طور پر تجارتی  انداز میں متعارف کروایا گیا تھا۔

شروع میں اس کو مشکوک نظروں سے دیکھا گیا اور اس کا استعمال صرف تھیٹر کی اداکارائیں، رقاصائیں اور جسم فروش خواتین کرتی تھیں۔ایمسٹرڈم میں 19ویں صدی کی فرانسیسی  اداکارہ سارا بیرنارٹ بھی موجود تھیں اور انہوں نے لِپ اسٹک والے پین کو محبت کا قلم قرار دیا۔ ابتدا میں لِپ اسٹک نا صرف مہنگی بلکہ ایک لگژری آئٹم تھی بلکہ  عوامی سطح پر اس کو پذیرائی گزشتہ صدی میں خاموش فلموں کے دور میں ملی۔1893ء میں ہی امریکہ میں قائم ہونے والے فیش اسٹور سیئرز کی فیشن کیٹلاگ میں بھی لِپ اسٹک کو شامل کیا گیا تھا۔ 1912ء تک امریکہ کی فیشن ایبل خواتین نے لِپ اسٹک کو قبول کر لیا تھا۔1921ء ایک ایسا سال تھا جب اس وقت کے تجارتی اور سیاسی منظر پر اجارہ داری کے حامل ملک برطانیہ کے دارالحکومت لندن کی خواتین نے اسے پسند کرنا شروع کیا اور یہی اس کی عام مقبولیت کا باعث بنا۔ بیسیویں صدی کی پہلی چوتھائی کے دوران لندن فیشن کا گھر خیال کیا جاتا تھا۔

مارکیٹ ریسرچ فرم مِنٹل کی ایک نئی تحقیق کے مطابق 16 سے 24 سال کے درمیان 48 فیصد خواتین لپ اسٹک کو انتہائی زیادہ پسند کرتی ہیں جبکہ ان کی فروخت میں سالانہ بنیادوں پر دس فیصد سے زائد اضافہ ہو رہا ہے۔جرمن اخبار  ہانڈلز بلاٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ دور میں سیلفی کے رجحان کی وجہ سے بھی لپ اسٹک اور میک اپ کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2011 سے 2016 تک میک اپ کی فروخت میں 53 ارب یورو کا اضافہ ہوا ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق سن2018 میں دنیا کی سات بڑی مارکیٹوں میں تقریبا 266 ارب یورو مالیت کا میک اپ فروخت ہوا۔ ان میں یورپ 78.6 ارب کے ساتھ سرفہرست ہے۔آج کل لِپ سٹک کے تیز رنگ متعارف کروائے جا رہے ہیں اور ان میں سرخ رنگ خاص طور پر اہم ہے۔