کابل: ان دنوں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ایک اہم مسئلہ اور موضوع بحث ہیں اور اسکی ایک کڑی کو جوڑتے ہوئے یہ کہا جارہا ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ کا مسودہ نہ صرف تیار کرلیا گیا ہے بلکہ اسے افغانستان کے ارباب مجاز کے حوالہ بھی کردیا گیا ہے۔طالبان کے ساتھ معاہدے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور انہیں عسکریت پسند گروپ کے ساتھ مجوزہ معاہدے کا مسودہ دکھا دیا۔
زلمے خلیل زاد دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے کئے دور کے دوران تقریباً ایک سال کا عرصہ گزار چکے ہیں کیونکہ ان مذاکرات کا مقصد افغانستان میں جاری 18 سالہ طویل امریکی جنگ کا خاتمہ کرنا ہے۔ممکنہ معاہدہ کا مرکز امریکی فوج میں کمی، عسکریت پسندوں اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات اور جنگ بندی کے ساتھ ساتھ طالبان سے کئی ضمانتوں کے گرد گھومتا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان اور عراق کے لیے سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد قطرکے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نویں دور کے بعد کابل پہنچے تھے۔اس حوالے سے حکام نے کہا ہے کہ انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور انہیں امریکہ ۔ طالبان معاہدے کا مسودہ دکھایا۔یہ ملاقات اس لیے اہم تھی کیونکہ افغان حکومت اب تک اس مذاکراتی دور سے بڑی حد تک دور رہی ہے، اگر کسی حتمی معاہدے کی صورت میں طالبان کو اشرف غنی سے بات کرنا ضروری ہوگا، جنہیں وہ امریکی کٹھ پتلی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ملاقات کے بعد افغان صدر کے ترجمان صادق صدیقی نے میڈیا نمائندوں سے کہا ہے کہ امریکہ اور دیگر شراکت داروں کی کوششوں کے نتائج اس وقت برآمد ہوں گے جب طالبان براہ راست افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہوجاتے ہیں، ہمیں امید ہے کہ یہ کوششیں تنازعات کے خاتمے کا باعث بنیں گی۔تاہم جب ان سے معاہدے کی وضاحت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم یہ ہے کہ طالبان کے تشدد کو روکا جائے، ہم پرامید ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان دستخط ہونے والا کوئی بھی معاہدے کا نتیجہ امن اور جنگ بندی کی صورت میں نکلے گا۔
دوسری جانب افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ نے ایک بیان میں کہا کہ انہیں بھی افغانستان میں مکمل اور پائیدار امن کے بارے میں تفصیلات اور یقین دہانی کروائی گئی تھی۔واضح رہے کہ افغان صدر کی جانب سے طالبان کے ساتھ انٹرا افغان مذاکرات میں ملاقات کے لیے 15 رکنی وفد کا تقرر کیا تھا، یہ مذاکرات آنے والے ہفتوں میں ناروے میں ہوں گے۔علاوہ ازیں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ اور طالبان معاہدے کی دہلیز پر ہیں جو تشدد کو کم کرے گا اور یہ پائیدار امن کے لیے ایک راستہ ہوگا۔
تاہم جہاں ایک طرف معاہدہ حتمی مراحل میں داخل ہوگیا ہے وہیں افغانستان بھر میں پرتشدد واقعات جاری ہیں۔ 31 اگست کو طالبان نے قندوز شہر پر قبضے کے لیے شمال سے حملہ کیا جبکہ انہوں نے بغلان صوبے کے دارالحکومت پل خمری میں بھی آپریشن کا آغاز کردیا تھا۔