حیدرآباد۔ طالبان کے افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے سے افغانی باشندوں کی دیگر ممالک منتقلی کا بڑے پیمانے پر آغاز ہوچکا ہے اور اطلاعات کے مطابق کئی افغان خاندان ہندوستان کو محفوظ پناہ گاہ تصور کرتے ہوئے یہاں منتقلی کی تیاری کررہے ہیں۔ نیز افغانستان کی موجودہ صورتحال سے پریشان اور فکر مند طلبہ جو تلنگانہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں ان طلبہ نے اپنے ویزا میں توسیع کی درخواست دی ہے تاکہ وہ افغانستان کے شورش زدہ حالات سے بچ سکیں۔
تلنگانہ میں تقریباً 200 افغانستان کے طلبہ مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں اور انہوں نے ہندوستان کو اپنے لئے محفوظ قراردیا ہے۔ افغان طلبہ نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں ساتھی طلبہ اور افغانستان میں ان کے افراد خاندان واپسی کے حق میں نہیں ہیں۔ بعض طلبہ کو اندیشہ ہے کہ واپسی کی صورت میں ان کا مستقبل غیر یقینی ہوجائے گا۔ کئی طلبہ ایسے ہیں جنہیں آئندہ چند ہفتوں میں ویزا کی تکمیل کے بعد وطن واپس ہونا ہے اوران کے کورس کی تکمیل کا وقت قریب آچکا ہے۔
جاریہ سال کے اختتام تک کئی طلبہ کے ویزا کی مدت ختم ہوجائے گی۔ افغان اسٹوڈنٹس اسوسی ایشن کے صدر محمد یوسف نے حکومت ہند سے درخواست کی ہے کہ ان کے ویزا کی میعاد میں توسیع کی جائے اور افغانستان میں صورتحال بہتر ہونے تک انہیں اسکالر شپ جاری کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ تقریباً 200 طلبہ جن میں 12 طالبات ہیں عثمانیہ یونیورسٹی، انگلش اینڈ فارن لینگویجس یونیورسٹی اور دیگر 3 یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں انہیں انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشن کی جانب سے ماہانہ 24,500 روپئے کی اسکالر شپ دی جاتی ہے۔
یوسف نے کہا ہے کہ کئی طلبہ کے امتحانات مکمل ہوچکے ہیں اور بعض کے ویزا اگسٹ کے اختتام تک ختم ہوجائیں گے۔ بیشتر طلبہ کو ڈسمبر تک وطن واپس ہونا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں طلبہ واپسی کےلئے تیار نہیں کیونکہ ان کا تعلیمی مستقبل وطن واپسی پر تاریک ہوسکتا ہے۔ ارکان خاندان واپسی کے حق میں نہیں ہیں اوروہ ہندوستان ہی میں قیام کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ حیدرآباد میں مقیم طلبہ بین الاقوامی نیوز چیانلس اور ویب سائٹس کے ذریعہ وطن کی صورتحال اور طالبان کی پالیسی کے بارے میں معلومات حاصل کررہے ہیں۔ طلبہ کے بموجب افغانستان میں ان کے رشتہ دار اور دوست احباب کافی فکر مند ہیں اور وہ اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے مقامی بااثر قائدین سے مدد حاصل کررہے ہیں۔