Sunday, June 8, 2025
Homeٹرینڈنگطلاق ثلاثہ نہیں سنگین مسائل پرتوجہ کی ضرورت

طلاق ثلاثہ نہیں سنگین مسائل پرتوجہ کی ضرورت

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی ۔ طلاق ثلاثہ بل کو قانون بنائے جانے پر حیرات اتنی بھی نہیں ہوئی کیونکہ بی جے پی کے اس دور میں کچھ بھی ہوسکتا ہے اور خاص کر مسلمانوں کے خلاف تو کوئی بھی قانون بنایا جاسکتا ہے۔ دائیں جانب کی اس حکومت میں اہم مسائل سے توجہ ہٹاکر ان مسائل کو اہمیت دی جاسکتی ہے جس کا اہمیت دیا جانا کوئی ضروری بھی نہیں ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اب پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ کی بل کو منظور کرتے ہوئے اسے قانونی درجہ دے دیا گیا ہے ، حالانکہ خود مسلم طبقے میں سینکڑوں ایسے مسائل ہے جنہیں جنگی خطوط پر حل کیا جانا ضروری ہے اور ان میں خاص کر روٹی ،کپڑا اور مکان کا مسئلہ ہر مسلم خاندان کیلئے بنیادی مسئلہ بنا ہوا ہے لیکن ایسے مسائل کونظر انداز کردیا گیا ہے اور اس کے برعکس جس مسئلے کا ہواکھڑاکیا گیا تھا وہ طلاق ثلاثہ ہے اور اسے پوری شدد کے ساتھ منظورکروایا گیا ہے ۔

یاد رہے کہ طلاق ثلاثہ کے لئے اسلام واضح رہنمائی کی ہے لیکن کچھ سماجی شیطانوں کی کارستانی ہے جس نے اسے متنازعہ بنادیا ہے ۔ ویسے بھی صرف مسلم سماج میں ہی نہیں دنیا کے تقریباً ہر سماج میں کچھ اےسے شیاطین موجود ہیں جوکہ کچھ غیر فطری اورغیر ضروری مسائل کھڑا کرتے ہوئے آئے دن نئے تنازعات پیدا کرتے ہیں ، حالانکہ ہمارے ملک میں زندگی بسر کرنے کیلئے کئی مشکلات اور رکاوٹیں ایسی ہیں جنہیں پہلے دورکرنا وقت کا تقاضہ ہے ۔

حالیہ کچھ عرصے سے دنیا کے تقریباً ہر خطے میں یہ فیشن بن گیا ہے کہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا ہے جس کے ذریعہ اسلام کی منفی تشہیر کی جاسکے اور اپنے سیاسی اور سماجی مفادات حاصل کئے جاسکیں ۔ ہندوستان کی ترقی کیلئے حکومت کیا کررہی ہے کچھ نہیں ، اس کے برعکس طلاق ثلاثہ کے مسئلے کو ایسی اہمیت دی گئی ہے جیسے اس کے بغیر ملک کی ترقی کا تصور ہی محال ہے حالانکہ طلاق ثلاثہ کو قانون بنانے کا جو جواز بنایا گیا اور چند ایک ایسے واقعات کو بنیاد بنائی گئی جو با آسانی نظر انداز کئے جاسکتے ہیں۔ طلاق ثلاثہ کے واقعات اور اس کیلئے چھوٹے موٹے گھریلو جھگڑوں کے اعداد و شمار اتنے قلیل ہیں کہ انہیں انگلیوں پر آسانی سے گنوایا جاسکتا ہے ۔

کسی جاہل نے اپنی بیوی کو روٹی جلا دینے پر ،کسی نے اپنی بیوی کو ترکاری کیلئے پیسے مانگنے پر ،کسی نے اپنی بیوی کو دعوت میں جانے کی اجازت طلب کرنے پر اورکسی نے اپنی بیوی کے میک اپ زیادہ کرنے پر طلاق دے دی ہے ، ایسی مثالوں کو بنیاد بناکر طلاق ثلاثہ کا قانون متعارف کیا گیا ہے حالانکہ ایسے واقعات آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں اورطلاق ثلاثہ کے قانون کو منظور کروانے کیلئے ایسے شواہد پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ جیسا کہ مظلوم خواتین گائے اور بکریوں کی طرح زندگی گذار رہی ہیں اور ان کے شوہر حضرات ان پر چرواہوں کی طرح ظلم و زیادتی کررہے ہیں ۔

دوسری جانب ہندوستان میں مسلم طبقہ بہتر قیادت نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کے مسائل کا بھی شکار ہورہا ہے کیونکہ مسلم طبقے کی درست سمت رہنمائی اور رہبری کرنے کیلئے کوئی قدآور لیڈر دکھائی نہیں دیتا جبکہ سیکولر جماعتوں کے دوغلے پن کی قلعی ایک مرتبہ پھر کھل گئی ہے کیونکہ وہ طلاق ثلاثہ کے خلاف ووٹ دینے کی بجائے پارلیمنٹ سے ہی واک آوٹ کیا جس سے بی جے پی اور اسکی حلیف جماعتوں کو زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں آسانی ہوئی ۔ ہندوستان میں اس وقت مسلم سماج سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کا شکار ہے اور ان میں اعتماد کا فقدان بھی ہے اور ان کے خلاف جو پروپگنڈہ چلایا جارہا ہے اس سے بھی ان کے حوصلے پست ہورہے ہیں اور ان تمام مسائل کی طرف حکومت کی توجہ ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں جاتی ۔

طلاق ثلاثہ کے متعلق اسلام ہماری ہر محاذ پر رہنمائی اور رہبری کرتا ہے غلطی ہماری ہے کہ ہم اس مسئلے کا درست مطالعہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی اسلام کی بنیادی اصولوں سے واقفیت حاصل کی ہے جس کی وجہ سے حالات مشکل ہوئے ۔ اگر دائیں بازوکی حکومت حقیقت میں مسلم طبقے کیلئے فکر مند ہے تو سب سے پہلے حکومت کو مسلم طبقے کے فرد آخر تک رسائی حاصل کرنی ہوگی پھر ان کے سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل سے واقفیت حاصل کرنی ہوگی تاکہ حقیقی معنی میں مسلم طبقے کے مسائل حل ہوں اور انہیں ترقی کیلئے نئی راہیں دکھائی جاسکے ۔

مسلم طبقے کی ترقی کیلئے حکومت کو سچر کمیٹی کی رپورٹ کی ایک نقل حاصل کرتے ہوئے اس کا مطالعہ کرنا ہوگا یا پھر اس طرح کی کوئی اور نئی رپورٹ کا بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے جس کے اعداد و شمار اور حقائق مسلم طبقے کے مسائل کی اصل ترجمانی کریں گے اور اندازہ ہوجائے گا کہ مسلم طبقہ کس طرح ہندوستان میں دو وقت کی روٹی کے حصول کیلئے کن مسائل کا سامنا کررہا ہے اور کن رکاوٹوں کو عبور کرنے کیلئے اسے خون پسینہ بہانا پڑرہا ہے ان تمام کی ایک بنیادی وجہ حکومت کی فرقہ پرستی اور متعصب ذہنیت ہے ۔ حکومت کو سب سے پہلے فرقہ پرستی اور تنگ نظری اور تعصب کو ختم کرنا ہوگا ۔