حیدرآباد ۔21 مارچ ۔ ہر سال 23 مارچ کو عالمی یوم آب منایا جاتا ہے لیکن ہندوستان کے ایک بلین عوام ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں پانی کی مقدار انتہائی قلیل یا کمیاب ہے اور ان میں بھی 600 ملین ایسے افراد ہیں جو ان مقامات میں رہائش پذیر ہیں جہاں پانی کی مقدار تشویشناک حد تک کم ہے۔
عالمی سطح پر یوم عالمی آب کے موقع پر جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں چار بلین سے زیادہ عوام ایسے مقامات پر رہتے ہیں جہاں پانی کی مقدار یا تو قلیل ہے یا پھر انتہائی تشویشناک حد تک نیچے پہنچ چکی ہے ۔ ہندوستان کے متعلق جاری کردہ تفصیلات نے ماہرین اور ارباب مجاز کو سوچنے پر مجبور کر چکی ہے کیونکہ جہاں ہندوستان میں ایک جانب ایک بلین عوام قلیل مقدار میں موجود پانی کے علاقوں میں رہتی ہے تو دوسری جانب 2050 تک یہ تعداد 5 بلین سے زیادہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
”دنیا میں زیر زمین پانی“ کی صورتحال کے عنوان کے تحت کی گئی عالمی سطح کی اس تحقیق نے 22 مارچ کو عالمی یوم آب کے متعلق ہندوستان کی تفصیلات بھی فراہم کی ہیں۔ تحقیقاتی مطالعے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایک جانب پانی کی مانگ میں اضافہ جس کے تکمیل کے لیے مسلسل زمین سے پانی کے حصول کی وجہ سے سطح زمین میں پانی کی مقدار کم ہوتی جا رہی ہے تو دوسری جانب آبادی میں اضافہ اور ماحولیات کی تبدیلی بھی پانی کی مقدار کو کم کرنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ 2040 تک 33 ایسے ممالک ہوں گے جن میں پانی کی سطح زمین کے نیچے سے تشویش ناک حد تک بڑھ جائے گی اور ان ممالک میں 15 کا تعلق خلیجی ممالک سے ہے اور زیادہ تر علاقے پاکستان افغانستان اور اسپین کے علاوہ ہندوستان چین جنوب مشرقی افریقہ امریکہ آسٹریلیا کے بھی شامل ہیں۔
ہندوستانی عوام کے لئے ایک پہلو حوصلہ افزا ہے کیونکہ جہاں ایک جانب2000 تا 2010 کے درمیان سطح زمین میں پانی کی سطح کو قدرتی طور پر بڑھنے میں22 فیصد کا اضافہ ہوا تو اسی دوران ہندوستان میں زیرزمین پانی کی سطح میں 23 فیصد تک اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ قدرتی ذرائع سے حاصل ہونے والی حوصلہ افزا بات ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان دنیا کا ایسا ملک ہے جو کہ سطح زمین سے پانی کی زیادہ مقدار کو حاصل کرتا ہے ۔ ہندوستانی عوام سطح زمین سے 24 فیصد پانی حاصل کرتے ہےیں اور ہندوستان عالمی سطح پر پانی برآمد کرنے میں 12 فیصد کا حصہ ادا کرتا ہے۔ واٹر ایڈ کی جانب سے یہ رپورٹ جاری کی گئی ہے اور اس رپورٹ میں یہ انتباہ بھی دیا گیا ہے کہ جو مغربی ممالک غذائی اشیا اور لباس کی تیاری میں سرفہرست ہیں وہ اپنی اس تجارت کے لئے اتنا زیادہ پانی استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے غریب عوام کو صاف اور شفاف پینے کا پانی دستیاب نہیں ہو رہا ہے۔