حیدرآباد: تلنگانہ ہائی کورٹ نے پیر کو حکام کو ہدایت کی وہ خاتون ویٹر نری داکٹر کی عصمت دری اور قتل کے بعد انکاؤنٹر میں مارے گئے چاروں ملزموں کی لاشوں کو جمعہ 13دسمبر تک محفوظ رکھیں۔ عدالت نے6 دسمبر کے واقعے کی جامع جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے دائر کی گئی دو درخواستوں کی سماعت کی۔
چیف جسٹس آر ایس چوہان کی سربراہی میں ڈویژن بنچ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا پولیس نے کیس میں سپریم کورٹ کے رہنمااصولوں پر عمل کیا۔عدالت یہ بھی چاہتی تھی کہ حکومت اس کا ثبوت پیش کرے۔
در خواست گزاروں کے ایک وکیل نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ ایڈوکیٹ جنرل بی ایس پرساد نے بنچ کو پیش کیا کہ اسی طرح کی در خواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے ذریعہ کی جا رہی ہے،انہوں نے کہا کہ معاملہ جمعرات تک ملتوی کیا جانا چاہئے کیونکہ چہار شنبہ کے روز سپریم کورٹ میں سماعت ہونی ہے۔عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل سے اتفاق کیا اور اس معاملہ کو جمعرات تک کے لئے ملتوی کر دیا۔
جب حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ’گورنمنٹ میڈیکل کالج محبوب نگر میں لاشوں کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کی سہولیات کا فقدان ہے،تو عدالت نے ان لاشوں کو حیدرآباد کے گاندھی اسپتال میں منتقل کرنے کے احکامات جاری کر دئیے۔ اس سے قبل عدالت نے
9 دسمبر تک لاشوں کے تحفظ کے احکامات منظور کئے تھے۔
لاشوں کو جمعہ تک محفوظ رکھنے کے یہ احکامات انسانی حقوق اور خواتین کے گروپوں کی نمائندگی پر جاری کئے گئے ہیں۔جملہ15 تنظیموں کے دستخط شدہ در خواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ انکاؤنٹر سپریم کورٹ کے رہنما اصولوں کی خلاف ورزی کر تے ہوئے کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وکیل راجندر پرساد نے بھی انکاؤنٹر سے متعلق درخواست دائر کی ہے۔
واضح ہو کہ 6دسمبر کی صبح،ان چاروں ملزموں کو پولیس نے شاد نگر کے قریب چتانپلی میں ایک انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا تھا۔پولیس نے دعویٰ کیاہے کہ ملزموں نے پولیس کی ٹیموں سے اسلحہ چھین لیا اور فائرنگ کی اور پولیس کی جوابی فائرنگ میں چاروں ہلاک ہو گئے۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیاجب پولیس ملزموں کو جرم کے مقام پر شواہد اکٹھا کرنے کے لئے لے گئی تھی۔اسی مقام پر ہی ملزموں نے خاتون ڈاکٹر کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے اس کاقتل کر دیا تھا اور اس کو جلا دیا تھا۔