Wednesday, April 23, 2025
Homeٹرینڈنگعراق کے احتجاجی مظاہروں میں ہندوستانی آٹوز کا اہم اور مثبت  کردار

عراق کے احتجاجی مظاہروں میں ہندوستانی آٹوز کا اہم اور مثبت  کردار

- Advertisement -
- Advertisement -

بغداد ۔ حیدرآباد اور خاص کر پرانے شہر میں آٹو عوام کی مقبول عام سواری ہے لیکن اگر ہم کہیں  کہ عراق کے احتجاج میں آٹو کا کلیدی کردار ہے تو یہ خبر آسانی سے سمجھ میں نہیں آئے گی ۔ کیونکہ لفظ آٹو سنتے ہی ہمارے ذہن میں شہر کی تنگ گلیوں اور کوچوں میں عوام کےلئے دوڑنے والی سواری کی سمت جاتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ عراق کے حالیہ احتجاج میں جہاں چند ایک موضوعات اہم تھے وہیں تین پہیوں کی سواری آٹو بھی سرفہرست موضوعات میں ایک موضوع رہا۔

عراق میں جاری احتجاج کے غیر متوقع ہیرو کے طور پر آٹو رکشہ سامنے آیا ہے کیونکہ یہ ہی آٹوز نے اکتوبر کے بعد سے اب تک 300 سے زیادہ افراد کی جانیں بچائے ہیں ۔حکومت  مخالف مظاہروں کی وجہ سے عراق میں عوامی سطح کا پورا نظام ٹوٹ گیا ہے اور آٹو رکشہ ڈرائیور (جنہیں ٹوک ٹوک بھی کہا جاتا ہے) اب ضروری ہنگامی خدمات مہیا کررہے ہیں۔ پچھلے دو ماہ سے  وہ زخمی مظاہرین کو دواخانوں تک رسائی کو یقینی  بنانے رہے ہیں جس کی وجہ سے  انہوں نے اپنی جانوں کا خطرہ مول لیتے ہیں لیکن ان کی اس کوشش کی بدولت  آٹو رکشہ ان مظاہروں کی ایک مشہور علامت بن گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستانی کمپنی بجاج جو دنیا میں تین پہیے گاڑیاں فراہم کرنے والی  کی سب سے بڑی کمپنی ہے وہ عراق میں ان آٹو رکشوں کی ایک بڑی تعداد تیار کرتی ہے۔

کمپنی کے برآمدی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے عراق بڑی تعداد میں آٹو رکشا درآمد کرتا رہا ہے۔طویل عرصے سے آٹو رکشہ اور ان کے ڈرائیوروں کی عراق میں اچھی شہرت نہیں تھی۔عراق میں ٹوک ٹوک والے یہ افراد طویل عرصے سے غربت کی علامت رہے ہیں  اور ان لوگوں کی شہرت جو عام طور پر انھیں چلاتے ہیں غیر قانونی طور پر کام کرنے والے ان پڑھ طبقے کی حیثیت تھی جنہیں  بشمول ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر اور جان کو خطرہ میں ڈالنے والے طبقہ کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے  لیکن حکومت مخالف مظاہروں نے موٹرسائیکل رکشہ اور ان کے ڈرائیوروں کی شبیہہ کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔

اس وقت عراق میں آٹو رکشہ شہرت بڑھ گئی ہے اور خاص کر 30 اکٹوبر کو  جب جزوی طور پر نقصان پہنچا آٹو ایک سفارتی گاڑی کے طور پر استعمال ہوا اور اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی جینین ہینس پلاس چیئر نے اسے بغداد میں ایک بڑے احتجاج میں جانے کے لئے استعمال کیا۔ اس واقعہ نے عراقی مظاہروں میں آٹو رکشہ کے کردار کو بین الاقوامی میڈیا میں ایک نئی پہچان فراہم کردی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اچانک  عراق میں ٹُک ٹک ڈرائیور کی پہچان بدل گئی ہے اور اب وہ ایک بہادراور معزز آدمی بن چکا ہے جو آنسو گیس اور گولیوں کے درمیان  اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہا ہے تاکہ  زخمی مظاہرین کو بچائے اور انہیں دواخانوں میں شریک کروایا جائے ۔ عراق کے احتجاج میں آٹوزایسے  ایمبولینسوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں جو بلا معاوضہ بھیڑ تک پہنچ کر انہیں دواخانوں تک پہنچارہے ہیں  کیونکہ آٹوز ایسے مقامات تک رسائی کو یقینی بنارہے ہیں جہاں ایمبولنس بھی نہیں پہنچ رہا ہے۔

ال مانیٹر کے مطابق ، بغداد میں ایک عراقی مظاہروں میں آٹو رکشہ کے کردار کو بہترین طریقے سے اجاگر کیا جارہا  ہے۔ گرافٹی نے اعلان کیا ہے کہ – یہ ایک نیاانقلاب ہے۔یہ گاڑیاں مظاہرے میں کلیدی رسد کا کردار بھی ادا کرتی ہیں اور مظاہرین کو کھانا اور مشروبات کی فراہمی میں بھی مدد کرتی ہیں۔ایک عراقی مظاہرین مصطفیٰ بسیم نے کہا  مظاہرین کو بڑی تعداد میں ٹک ٹک کے بارے میں یقین دلایا جارہا ہے جو لوگوں کی جانیں بچاتے ہیں۔

جامعہ بغداد کے ایک سماجی محقق احمد البیہبی نے مظاہروں میں آٹوزکے کردار پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس سے اس کے ڈرائیوروں میں فخر کا احساس پیدا ہوا ہے۔انہوں نے کہا اگر مظاہروں میں ان آٹوز کونقصان پہنچا تو بہت سارے لوگ ہیں جو انہیں نقد عطیات دینا چاہتے ہیں یا گیراج کے مالکان جو مفت میں اس کی مرمت کرتے ہیں۔