Tuesday, June 10, 2025
Homeخصوصی رپورٹعقیقہ، تسمیہ اور ختنہ سے زیادہ برتھ ڈے کی اہمیت

عقیقہ، تسمیہ اور ختنہ سے زیادہ برتھ ڈے کی اہمیت

- Advertisement -
- Advertisement -

اطہر معین
گجرات کے خونریز فسادات کے دوران ہندو رضاکار تنظیموں کی جانب سے امداد تقسیم کی جارہی تھی۔ امداد کے حصول کیلئے یہ لازم تھا کہ ’جئے شری رام‘ کا جملہ ادا کیا جائے۔ جب ایک معصوم بچہ کو ایک والینٹر نے پھٹے پرانے کپڑوں میں دیکھا تو اسے قریب بلایا اور ہاتھ میں ایک ٹافی تھام کر اس سے کہا ’جئے شری رام‘ کہو تو اس بچہ کی غیرت ایمانی کو یہ گوارہ نہیں ہوا کہ وہ مشرکانہ کلمہ ادا کرے او راس نے ٹافی کیلئے بڑھا اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور زور سے ’لا الہ الا اللہ محمدر رسول اللہ‘ کہتے ہوئے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ چاکلیٹ بچوں کی کمزوری ہوتے ہیں۔ اگر ایک ہاتھ میں ہیرا اور دوسرے ہاتھ میں چاکلیٹ رکھ کر اسے جب آپ قریب بلاؤ گے تو وہ پہلے چاکلیٹ کو حاصل کرلے گا چونکہ اسے ہیرے کی قدر نہیں مگر اس بچہ نے اس ٹافی کو ٹھکرادیا۔ اس ننھے سے دل میں وحدت الہیٰ کا عقیدہ کس نے جاگزیں کیا تھا؟ یقیناً اس کی ماں نے ہی اسے یہ سکھایا ہوگا کہ ان کا رب صرف اللہ ہے اور اس کی ذات میں کسی کو شریک نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس معصوم کا دل چاکلیٹ کے لالچ میں نہیں بھٹکا کیونکہ اس کی تربیت صحیح ماحول میں ہوئی تھی مگر کانونٹ اور غیر مسلم انتظامیہ کے اسکولوں میں تعلیم پانے والے ہمارے بچوں میں یہ حرارت ایمانی پیدا نہیں ہوسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے اسکول میں شرک و الحاد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ کانونٹ اسکولس میں تو ایسے ایسے حربے اختیار کئے جاتے ہیں کہ بچہ کا ایمان متزلزل ہوجائے ۔ بچوں کے ایمان پر ان کی تعلیم کو اہمیت دینے والے والدین کی آج کمی نہیں ہے۔ این ڈی اے حکومت میں جب تمام اسکولس میں وندے ماترم کے پڑھنے کو لازم کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا تھا تو اس وقت مولانا علی میاں ندویؒ نے یہ اعلان کیا تھا کہ مسلمان اپنے بچوں کو ان مدارس سے نکال لیں گے جہاں مشرکانہ گیت پڑھنے پر انہیں مجبور کیا جاتا ہے۔ چاہے ہمارے بچے جاہل ہی کیوں نہ رہ جائے مگر ہم ان کو شرک کی گمراہیوں میں مبتلا ہونے نہیں دیں گے۔ ہم اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیں گے مگر اپنے ایمان کا سودا نہیں کریں گے۔ مولانا علی میاںؒ نے اس وقت یہ نہیں سوچا تھا کہ امت کی نئی نسل اگر تعلیم سے بے بہرہ ہوجائے گی تو اس قوم کی اقتصادیات کا کیا ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ ہم غربت و فاقہ کشی کی زندگی بسر کرسکتے ہیں مگر کفر و الحاد کی زندگی ہمیں گوارہ نہیں ۔ آج عیسائی مشنری کا کوئی ایسا اسکول نہیں ہوگا جہاں دانستہ طور پر ہمارے ایمان پر ڈاکہ نہیں ڈالا جاتا مگر ہمارے والدین کو نہ اپنا اور نہ اپنی اولاد کے ایمان کے زیاں ہونے کا احساس باقی رہا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے والدین یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے بچہ کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ اسے کانونٹ اسکولس یا ایسے انتظامیہ کے اسکولس میں داخلہ دلایا جائے جہاں اعلیٰ میعاری انفراسٹرکچر ہے۔ ہمیں یہ ذہن دیا گیا کہ معیاری اسکولس میں تعلیم دلانے سے بچے اعلیٰ تعلیم پاکر بہتر روزگار حاصل کرسکتے ہیں اور اعلیٰ سماجی رتبوں پر فائز ہوسکتے ہیں جو حقیقت سے بعید ہے۔ اسکولوں کے مشرکانہ ماحول میں پروان چڑھنے والے بچے کفر و الحاد میں مبتلا ہونے سے بچ بھی جائیں تو وہ شرک کو معیوب نہیں سمجھتے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ عیسائی مشنری اسکولوں میں تعلیم پانے والے بچے روزانہ اسمبلی میں ہاتھ جوڑ کر ایسے کلمات ادا نہیں کرتے جن میں یسوع کو خدا کا بیٹا مان کر مانگا جاتا ہے ؟ ہمارے والدین سب جانتے ہیں مگر سمجھوتہ کر بیٹھے ہیں۔ ان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی جائے تو یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو یہ سکھا رکھا ہے کہ اسمبلی میں شرکت بھی کریں اور یسوع کی جگہ اللہ کا لفظ ادا کریں۔ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ ہمارے والدین بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی دانست میں سب سے بہتر سمجھے جانے والے اسکول میں اس کے داخلہ کو یقینی بنانے کی سعی شروع کردیتے ہیں۔ ان کانونٹ اسکولس کی ایک پالیسی ہوتی ہے کہ داخلہ آسانی سے دینے کی بجائے ایسا موقف اختیار کیا جائے جس سے لگے کہ ان کو داخلہ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ سفارشات کو بھی وہ خاطر میں نہیں لاتے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے پاس ان اداروں کی اہمیت بڑھ گئی اور ان اسکولس میں اپنے بچوں کے داخلہ کو اپنے سماجی رتبہ کا مظہر سمجھنے لگے ہیں۔ اسکول میں داخلہ کیلئے گھنٹوں نہیں دن برباد کئے جاتے ہیں۔ ایک دور تھا کہ بچہ کی پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کردیا جاتا اور جب وہ بولنے اور سمجھنے لگتا تو اس کی تسمیہ خوانی کروائی جاتی مگر آج ایسے کئی امیر گھرانے ہوں گے جن کیلئے دو بکروں کی خریدی بوجھ نہیں مگر وہ عقیقہ کی ادائی کے فریضہ سے فرار اختیار کرنے لگے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ عقیقہ‘ ختنہ اور تسمیہ سے زیادہ ہمارے گھرانوں میں ’برتھ ڈے‘ کو اہمیت دی جانے لگی ہے۔ ہمارے والدین کو اب یہ یاد نہیں رہتا کہ بچہ کو مکتب بھیجنے سے قبل اس کی زبان سے اللہ کا کلام ادا کروایا جائے تاکہ اس کی برکت اس کی زندگی میں محسوس ہوتی رہے۔ ہم خاندان کے مغربی نظریہ کو اختیار کرچکے ہیں جس میں بزرگ والدین کو خاندان سے نکال باہر کردیا گیا ہے۔ جو لوگ جائیداد سے محروم ہونے سے بچنے کے لئے مشترکہ گھروں میں مجبوراً رہنے لگے ہیں وہ لوگ بھی اپنے خاندان کو اپنے کمرہ کے گوشہ تک محدود کررکھا۔ کاش کہ گھر میں دادا‘ دادی اور نانا‘ نانی ہی ہوتے ‘ وہ بچوں کو نیند کی آغوش میں بھیجتے ہوئے انبیائے کرام اور اولیائے صالحین کے قصے سنادیا کرتے مگر ہماری ماؤں کو قصص الانبیاء اور قصص الاولیاء سے کیا سروکار ‘ وہ تو بچوں کی تفریح کیلئے ’مِکی ماؤس‘ ’ٹام اینڈ جیری اور ’ہیری پوٹر‘ کی کہانیوں پر مبنی کتابیں فراہم کردیتی ہیں اور ٹیلی ویژن پر کارٹون سیرئیلس لگاکر دے دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے والے مولوی صاحب کی قدر نہیں مگر ٹیوشن پڑھانے والی ٹیچر کی بڑی آؤ بھگت ہوتی ہے۔