حیدرآباد۔ حیدرآبادی عوام اور خاص کر نوجوان نسل میں اکثریت اس حقیقت سے شاید واقف نہیں کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا نظم کہنے والے شاعر مشرق نہ صرف ایک سے زیادہ مرتبہ حیدرآباد کو دورہ کرچکے ہیں بلکہ انہوں نے اسمبلی ہال جو پہلے ٹاون ہال کے نام سے جانا جاتا تھا اس میں توسیعی لکچر دیا تھا۔
ویسے بھی حیدرآباد کا شاعری اور معروف شعراءسے کافی مضبوط رشتہ ہے ۔حیدرآباد کے بانی محمد قلی قطب شاہ خود اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہے اور حیدرآبادی عوام میں شاعری کا ذوق دیکھنے لائق ہے تاہم ۔اردو کے عظیم شاعر علامہ اقبال نے 1910میں حیدرآباد کا دورہ کیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے اس عظیم شہر کا دومرتبہ اور بھی دورہ کیا تھا اور تلنگانہ اسمبلی کی موجودہ عمارت جسے اُس زمانے میں ٹاون ہال کہا جاتا تھا اس عمارت میں اقبال نے اسلام میں مذہبی خیالات کی تعمیر نوکے موضوع پر توسیعی لکچرس دیئے تھے ۔
اپنی ایک دوست عطیہ بیگم کو لکھے گئے خط میں اقبال نے کہا حیدرآبادکا میرا دورہ با معنی رہا جس کے بارے میں ہماری ملاقات کے موقع پر میں آپ کو بتاوں گا ۔ اپنے دورہ کے دوران علامہ اقبال اس وقت کی حیدرآباد دکن ریاست کے وزیراعظم مہاراجہ کشن پرشاد کے مہمان تھے ۔علامہ اقبال نے پانچ دن حیدرآباد میں قیام کیا اور قطب شاہی بادشاہوں کی آخری آرامگاہیں گنبدان قطب شاہی کا نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ بدرکامل کے موقع پر ایک نظم گورستان شاہی بھی کہی ۔
یہ مقبرے اقبال کے لئے کافی متاثر کن تھے جس کی وجہ سے انہوں نے یہ نظم تحریر کی تھی۔ 116اشعار والی اس نظم میں انسان کی بے بسی، لاچاری، ناگزیر موت، بادشاہت کے عروج و زوال کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اقبال کے لئے حیدرآباد ایک اہم مقام رکھتا تھا اور ان کے دل میں اس کے لئے خصوصی اوراہم جگہ ہے ۔ جے ایس افتخار کی رپورٹ کے مطابق 7جنوری 1938کو پہلی مرتبہ حیدرآباد میں یوم اقبال منایا گیا۔ان کے نام پر بزم اقبال تنظیم کا بھی قیام عمل میں لایا گیا۔
حیدرآباد کو پہلی مرتبہ اقبال کی ابتدائی نظمو ں کے مجموعہ کی اشاعت کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔ میں اقبال اکیڈیمی کی جانب سے یوم اقبال بھی منایا گیا تاکہ اس عظیم شاعر کے دورہ حیدرآباد کو یاد کیاجاسکے ۔سرکردہ اسکالرس نے اقبال کے کلام اور انسانیت کے لئے ان کے پیام پر روشنی ڈالی۔سید خلیل اللہ حسینی سرکردہ ماہر تعلیم جو اقبال سے کافی متاثر تھے انہوں نے ان کے فلسفہ اور خیالات ونظریات کو حیدرآباد میں زندہ رکھنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ حسینی نے بزم احباب کا قیام عمل میں لایا جہاں اقبال کی شاعری پڑھی جاتی اور اس پر غور وفکر کیاجاتا۔
بعد ازاں 1954میں اس تنظیم کو مجلس تعمیر ملت کا نام دے دیا گیا۔ 1959میں انہوں نے اقبال اکیڈیمی کا قیام عمل میں لایا تاکہ ان کی شاعری پر تحقیق کی جاسکے ۔آج یہ اکیڈیمی اس عظیم شاعر کی شاعری کے تجزیہ کا سرکردہ مرکز ہے ۔کئی اعزازی ڈگریوں کے حامل علامہ اقبال کو 1938میں حیدرآباد کی عظیم یونیورسٹی جامعہ عثمانیہ نے بھی ڈی لیٹ کی ڈگری دی تھی۔
مہاراجہ کشن پرشاد کے نام اقبال کی جانب سے اپنے ہاتھ سے لکھی گئی نظم ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد میں آج بھی محفوظ ہے ۔اس ادارہ کا قیام سید محی الدین قادری زور نے اردو کی ترقی اور ترویج کے لئے عمل میں لایاتھا۔اس ادارہ میں دیگر سرکردہ شعرا جیسے داغ دہلوی، جگر مراد آبادی کے بھی خطوط موجود ہیں۔
اقبال کے انتقال کی اطلاع پر حیدرآباد سوگ میں ڈوب گیا تھا۔حیدرآباد کئی شعرا کا مسکن رہا ہے جن میں داغ دہلوی بھی شامل ہیں جنہوں نے ابتدا میں کلام اقبال کی اصلاح کی تھی۔اقبال کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی وہ ہنوز حیدرآباد کے لوگوں کے دلوں میں اپنے کلام کے ذریعہ زندہ ہیں۔آج بھی لوگ اقبال کی مشہور نظم سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا پڑھ کر اس عظیم شاعر کو بھرپور خراج پیش کرتے ہیں۔
کلام اقبال،فکر اقبال،فلسفہ اقبال اور اقبال کی شاعری کے مختلف پہلووں کو سمجھنے کے لئے 8 اکتوبر 1997سے باضابطہ لکچرس کا اہتمام بھی کیاجارہا ہے اور تاحال ایسے 987 لکچرس منعقد کئے جاچکے ہیں۔اس طرح کے لکچرس کے لئے محفل اقبال شناسی کا اہتمام کیاجاتا ہے ۔ یہ محافل شہر حیدرآباد کی مشہور مسجد عالیہ کے کانفرنس ہال میں ہر چہارشبنہ کی شام منعقد کی جاتی ہے جس میں مشہور شخصیات لکچرس دیتی ہیں۔ دودہے کے دوران ان کی شاعری کے مختلف پہلووں پر نظر ڈالی گئی اور اس کو اجاگر بھی کیاگیا۔اہم پروفیسرس، نقاد اور شعرا اس عظیم شاعر پر لکچرس دیتے ہیں۔