Sunday, June 8, 2025
Homeتازہ ترین خبریںعورتوں کے مسجد میں داخلے کی اجازت کےلئے سپریم کورٹ  سے مطالبہ،سستی...

عورتوں کے مسجد میں داخلے کی اجازت کےلئے سپریم کورٹ  سے مطالبہ،سستی شہرت کی ایک ناپاک کوشش

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ کرۂ ارض پر انسان کے پہلے قدم رکھنے سے لے کر قیامت کے برپا ہونے تک شرو خیر، حق اور باطل کی لڑائی جاری رہے گی اور تاریخ گواہ ہے کہ ہر زمانے میں  اور ہر خطے میں آئے دن ایسے اشرار پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اسلامی تعلیمات اور شریعت میں مداخلت کرنے اور ایک نیا تنازعہ کھڑا کرنے میں اپنی ساری توانائیاں جھونک دی ہیں ۔یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اشرار میں جہاں غیروں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے تو کچھ ایسے اپنے بھی ان میں شامل رہتے ہیں جوکہ نام کے مسلمان ہوتے ہیں لیکن ان کی منافقت کا اندازہ ان کی اسلام بیزار حرکتوں اور شریعت سے بغض سے لگایا جاسکتا ہے ۔ ہمارے ملک  ہندوستان میں بھی حالیہ دنوں میں تین طلاق کے مسئلے پر بی جے پی اورمسلم مخالف جماعتوں نے اپنی پوری کوشش کررکھی ہے اور اب اس ہفتے سپریم کورٹ میں ایک مسلم جوڑے نے خواتین کو مساجد میں نماز کی اجازت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے درخواست داخل کی ہے جو کہ دراصل مندر میں خواتین کے داخلے کے حالیہ مسئلہ کے بعد اٹھایا جانے والا ایک نیا شوشہ ہے۔

اس مسئلہ کے مذہبی اور دستوری پہلوؤں پر بحث کرنے سے پہلے ہر انسان کو یہ جان لینا ضروری ہے کہ اسلام ایک فطری مذہب ہے جس نے شریعت کے ذریعہ مرد اور عورت کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے اور دونوں کو ان کے اعتبار سے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام فراہم کیا ہے اور کسی بھی صنف کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا ہے ، جیسا کہ مرد کو حصول معاش اورتجارت کی غرض سے گھر سے باہر کی دنیا کا حاکم بنایا ہے تو دوسری جانب  عورت آسانی  اور آرام فراہم کرنے کی غرض سے  گھر کی حکمرانی فراہم کی ہے ۔ عورت  اپنے گھر کی حکمراں ہوتی ہے جبکہ مرد کو باہر کی دنیا میں دوڑ دھوپ کرنا پڑتا ہے ،اسی طرح مذہبی امور کی ادائیگی میں بھی اللہ رب العزت نے مرد اور عورت  کو ان کی ساخت ،قوت برداشت اور فطری تقاضوں کے اعتبار سے عبادات بھی فرض کیے ہیں ۔

سپریم کورٹ میں جس جوڑے نے  درخواست داخل کی ہے سب سے پہلے تو خبروں میں کہیں بھی اس جوڑے کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے اور اگر نام ظاہر بھی کیا جاتا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے کہ آج دنیا میں کروڑہا ایسے مسلمان موجود ہیں جو صرف نام کے مسلمان ہیں عملی طور پر اسلام اور شریعت سے ان کا دور دور تک تعلق نہیں ہوتا۔ دوسری بات جو انہوں نے درخواست داخل کی ہے کہ خواتین کو مسجد میں نماز کی اجازت دی جائے تو ہندوستان میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے کہ خواتین کو مسجد میں داخلے کی اجازت نہیں اورسختی سے پابندی عائد ہے ۔اکثر مساجد میں خواتین کے لیے علحیدہ نماز کا انتظام پردے کے ساتھ موجود ہیں اور رمضان میں شہر حیدرآباد میں ہی کئی ایسی مساجد موجود ہیں جہاں خواتین کے لئے تراویح کا باضابطہ انتظام بھی کیا جاتا ہے ۔اس جوڑے نے سپریم کورٹ کو اپنی درخواست  کے ذریعہ مطلع کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین کو مسجد میں داخلے کی اجازت تھی جس کے بعد اس  جوڑے  نے یہ بھی دعویٰ پیش کیا ہے کہ قرآن میں کہیں بھی خواتین پر مساجد میں داخلے پر پابندی عائد ہے ۔ یہ سچ ہے کہ حضور اکرم کے زمانے میں خواتین مساجد میں نماز ادا کرنے کے لیے آتی تھیں لیکن اس کی کچھ شرائط بھی تھی جس میں پردے کی پابندی  اورخوشبو کا استعمال  نہ کرنا وغیرہ شامل تھیں لیکن بعد میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں فتنے کی وجہ سے خواتین پر مسجد میں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

عورتوں کے مساجد میں نماز ادا کرنے کے برعکس ایسی احادیث بھی تواتر کے ساتھ موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں کا اپنے گھر کے کسی کونے میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے اگرچہ بعض احادیث میں خواتین کو خاص مواقع پر نمازِ باجماعت میں شامل ہونے کی اجازت دی مگر ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ عورت کی بہترین نماز وہی ہے جو مسجد کی بجائے گھر میں ادا کی جائے۔ اس حوالے سے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَ کُمُ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ.

ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء فی خروج النساء إلی المسجد، 1 : 224، رقم : 567

‘‘اپنی عورتوں کو مسجد میں آنے سے مت روکو لیکن ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔’’

 سپریم کورٹ میں داخل کردہ درخواست میں اس جوڑے نے جو استدلال پیش کیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین کو مسجد میں نماز کی اجازت دی گئی تھی لیکن اگر اس جوڑے میں بہتر کے انتخاب  کی قوت ہو تو انہیں مندرجہ بالا حدیث ہی کافی ہوجائے گی ،جس میں کہا گیا کہ عورت کے لیے اس کے گھر میں نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے اور جب نماز ہی ادا کرنا ہے تو افضل ترین جو طریقہ ہے اسے اختیار کرنا عقلمندی کا تقاضہ ہے کیونکہ اگر ہمیں کوئی بیماری لاحق ہو تو جب ڈاکٹر کوئی بہتر دوا تجویز کرتا ہے تو ہم پہلے بہتر سے بہترین علاج کو منتخب کرتے ہیں ناکہ  جو دوسرے درجہ کا علاج ہو ۔اسی طرح جب ہمارے رب نے ہمیں بہتر سے بہترین طریقہ اور زندگی گزارنے کے اصول بتادیئے ہیں تو پھر یہ عقل کا تقاضہ نہیں کہ انسان بہتر سے بہترین کو چھوڑ کر کم درجے کے اصول و ضوابط اختیار کرتے ہوئے غیر ضروری مسائل کھڑا کرے۔

 اس معاملے پر شہر حیدرآباد کی ایک سماجی کارکن خالدہ پروین نے بھی میڈیا نمائندے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ اسلام میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا نہیں بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف آئے دن کوئی  نہ کوئی  نیا تنازعہ  کھڑا کرنے کے پیچھے کارفرما مسلم دشمن عناصر کی سازشوں کا ایک حصہ دکھائی دیتا ہے۔ خالدہ پروین نے کہا کہ نے یہ بھی کہا ہے کہ مساجد میں عورتوں کو آنے کی اجازرت طلب کرنا اس جوڑے کی کم علمی کا مظہر ہے کیونکہ ہندوستان کے ہر بڑے شہر ممبئی ،بنگلور،دہلی اور حیدرآباد میں کئی ایسی مساجدہیں جن میں باضابطہ ایسے پروگرامس منعقد کئے جارہے ہیں جن کا عنوان خود‘‘ وزیٹ مائی ماسک’’ ہے اور یہ پروگرامس مساجد میں ہی منعقدہ ہورہے ہیں جن میں شرکت کی ہر ایک کو ملالحاظ مذہب وہ ملت اجازت ہے ۔

خالدہ پروین نے کہا کہ اسلام نے تمام مسائل کے حل شریعت میں فراہم کر دیے ہیں اور یہ مسئلہ اس جوڑے کا مسئلہ نہیں بلکہ شریعت میں مداخلت کی ایک اورناپاک  کوشش ہے ۔اس جوڑے کو سپریم کورٹ سے اپنی اپیل واپس لیتے ہوئے اپنے مسئلے کو شریعت کی روشنی میں دین کے علماء سے رجوع کرنا چاہئے ۔

سپریم کورٹ میں خواتین کو مساجد میں جاکر نماز ادا کرنے کی اجازت کی درخواست داخل کرنے کے بعد مسلم معاشرے میں ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ اپنی ناراضگی   ظاہر کرتے ہوئے شہر حیدرآباد کی ایک اور سماجی کارکن شیرین سلطانہ نے کہا کہ اسلام میں مرد کو چار شادیوں کی بھی اجازت ہے تو کیا جس خاتون نے مسجد میں جاکر نماز ادا کرنے کی اجازت  سپریم کورٹ  سے مانگی ہے وہ خوشی خٰوشی اپنے شوہر کی دوسری شادی کروا سکتی ہے؟ کیونکہ جب اسلام نے تو شوہر کو دوسری شادی سے منع نہیں کیا ہے تو پھر ہم بیویاں  اس حکم کو حکم الہیٰ مانتے ہوئے اس پر عمل کیوں نہیں کرتی  اور کیونکہ سپریم کورٹ میں یہ اپیل داخل نہیں کرتی کہ شوہر کو دوسری شادی کا پابند بنایاجائے تاکہ سماج میں جو بیوائیں  اور مطلعقہ خواتین ہیں اور عمریں گذرجانے کے باوجود جن لڑکیوں کی شادی نہیں ہورہی ہیں ان کے ساتھ بھی امتیازی سلوک ختم ہو اور انہیں بھی ایک خوشگوار زندگی کا موقع ملے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس جوڑے نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے اسلام اور شریعت کا سہارا لیتے ہوئے ایک تنازعہ کھڑا کیا ہے لہذا امت مسلمہ کو اس مسئلہ پر سنجیدگی سے اور تمام مدلل پہلوؤں کو پیش کرتے ہوئے حقانیت کو ثابت کرنا ہوگا۔