استنبول: ترکی کی پارلیمان نے کرد نواز دو ارکان اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ایک رکن کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں پارلیمانی حیثیت سے محروم کردیا ہے۔پارلیمانی حیثیت کھونے والے دو ارکان لیلیٰ گووین اور موسیٰ فارس گولاری کا تعلق کرد نواز جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ( ایچ ڈی پی) اور انیس بربر اوغلو کا تعلق ری پبلکن پیپلز پارٹی ( سی ایچ پی) سے ہے۔ ان دونوں جماعتوں نے پارلیمان کے فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔
ترکی کی ایک اپیل عدالت نے لیلیٰ گووین اور موسیٰ فارس گولاری دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے پر پارلیمانی رکنیت سے محروم کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے جبکہ انیس بربر اوغلو پر سرکاری راز فاش کرنے کا الزام عاید کیا گیا تھا۔اس کے بعد پارلیمان نے ان کی پارلیمانی حیثیت ختم کردی ہے۔سی ایچ پی کے لیڈر کمال قلیچ دار اوغلو نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ ہم انصاف کے حصول،حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لیے جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ایچ ڈی پی کے رکن سرحان اولچ نے پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ووٹروں اور کرد عوام کے حق اور منشا کی چوری ہے۔واضح رہے کہ ترک حکومت ایچ ڈی پی پر کالعدم جنگجو جماعت کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) سے تعلقات کے الزامات عاید کرچکی ہے جبکہ ایچ ڈی پی ایسے کسی تعلق سے انکاری ہے۔پی کے کے نے 1984ء میں ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں مرکزی حکومت اور اس کے تحت سکیورٹی فورسز کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے تھے۔اس خانہ جنگی میں اب تک کم سے کم 50 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔پی کے کے کو ترکی کے علاوہ امریکا اور یورپی یونین نے دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔
600 نشستوں پر مشتمل ترک پارلیمان میں صدر رجب طیب اردوغان کی جماعت انصاف اور ترقی پارٹی (آق) کے ارکان کی تعداد291 ہے۔سی ایچ پی کی اب 138 نشستیں رہ گئی ہیں اور ایچ ڈی پی کے ارکان کی تعداد 58 ہے۔حکمران جماعت آق اب پارلیمان میں ایسی قانون سازی متعارف کرا رہی ہے جس کے بعد پی کے کے یا دوسری کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے لیے انتخاب لڑنا مشکل ہوجائے گا۔