Monday, June 9, 2025
Homeخصوصی رپورٹماؤں کو اولاد سے زیادہ ٹی وی سیرئیلس کے کرداروں کی فکر

ماؤں کو اولاد سے زیادہ ٹی وی سیرئیلس کے کرداروں کی فکر

اطہر معین
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابوطلحہؓ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کو پیغام نکاح بھیجا تو
انہوں نے جواب دیا‘ اللہ کی قسم! تیرے جیسا آدمی خالی واپس نہیں جاسکتا لیکن بات یہ ہے کہ تو کافر ہے اور میں مسلمان ہوں۔ میرے لئے حلال نہیں ہے کہ تیرے نکاح میں آؤں۔ اگر تم مجھ سے نکاح کے خواہاں ہو تو پھر میرا حق مہر یہ ہے کہ تم مسلمان ہوجاؤ۔ پس ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ مسلمان ہوگئے اور یہی ان کا حق مہر ہوا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہماری لڑکیاں غیر مسلموں پر فریفتہ ہورہی ہیں اور اسے پانے کے لئے اپنی عفت ہی نہیں ایمان کا تک سودا کررہی ہیں۔ یہ تبدیلی یقیناً امت مسلمہ کے لئے بڑی ہی تشویش کا موجب ہے۔ ایسے واقعات کے تدارک کے لئے جہاں فی الفور اقدامات کئے جانے چاہئے وہیں ہمیں اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہئے کہ ایسے حالات کیونکر پیدا ہورہے ہیں۔ نئی نسل کے بگاڑ میں والدین کا کتنا حصہ ہے؟ آخر ہماری نئی نسل ایمان پر شہوت کو کیوں ترجیح دینے لگی ہے؟ دراصل بچوں کی خصلت وفطرت پر والدین کی عادات و اطوار کا گہرا اثر پڑتا ہے اور یہ عمل اسی وقت سے شروع ہوجاتا ہے جب بچہ مادر شکم میں نمو کے مدارج طئے کرنا شروع کرتا ہے۔ والدین خاص کر ماں کا بچہ کی شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کی گود کو بچہ کا پہلا مکتب قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے اسلاف کی مائیں جو بڑی خدا ترس ہوا کرتی تھیں‘ وضع حمل کے ساتھ ہی اپنے رب سے رشتہ کو اور بھی زیادہ استوار کرلیا کرتی تھیں تاکہ ان کے شکم میں پرورش پانے والی اولاد پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں۔ ایام حمل میں ان کے معمولات میں تلاوت قرآن مجید‘ ورد درود شریف اور وظائف کا اضافہ ہوجاتا تھا اور آج کی ماؤں کا یہ معمول ہے کہ ان کے شب و روز ٹیلی ویژن پر کبھی ’’ساس بھی بہو تھی ‘‘، ’’گھر گھر کی کہانی‘‘ جیسے واہیات سیرئیلس کے مشاہدہ کی نذر ہوجاتے ہیں۔ انہیں کھانا پکاتے ہوئے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں ان کا پسندیدہ سیرئیل چھوٹ نہ جائے۔ یہی نہیں بلکہ گھر کے کام کاج کرتے ہوئے جو بڑی حد تک کم ہوجاتے ہیں یہی سوچتی رہتی ہیں کہ آج کے ایپی سوڈ میں ’نمو کا کیا ہوگا‘۔ ان سیرئیلس میں جو زیادہ تر ایک مخصوص پروڈکشن کمپنی کے مخصوص اہداف کے ساتھ تیار کردہ ہیں‘ ناجائز تعلقات‘ آزادی نسواں اور گھر میں اپنی بالاتری کو بنائے رکھنے جیٹھانیوں اور دیورانیوں کے نیچ حربوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ سیرئیلس نہ صرف ہماری خواتین کی فکر و سوچ پراثر انداز ہوتے ہیں بلکہ ماں کی فکر و سوچ کا اثر شکم میں پرورش پانے والی اس ننھی جان پر بھی پڑتا ہے جس نے ابھی آنکھ نہیں کھولی ہے اور یہ سائنس سے بھی ثابت ہوچکا ہے۔ ہمارے اسلاف کی ماؤں نے اپنی اولاد کو دین کا غازی و شہید بنانے کے لئے اپنی سوچ و فکر کو بھی مطہر رکھا تھا اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہماری مائیں حیا سوزی کی تمام حدیں توڑ رہی ہیں۔ ایسی ماؤں کی گود میں پلنے والی اولاد کے مرتد ہوجانے پر ایک ایماندار شخص کو حیرت زدہ نہیں ہونا چاہئے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ جب بنگال کے دورہ سے گھر واپس آئے تو خوشی کی وجہ سے چہرے پر رعنائی تھی۔ آپ نے اپنی والدہ کی قدم بوسی کی۔ ماں نے پوچھا‘ بیٹے ! کیا بات ہے کہ آج بڑے خوش نظر آرہے ہو؟ انہوں نے فرمایا‘ امی ! اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سعادت بخشی کہ لاکھوں انسانوں نے میرے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ ماں نے یہ سن کر فرمایا‘ بیٹا ! یہ تیرا کمال نہیں ‘ یہ تو میرا کمال ہے۔کہنے لگے‘ امی ! آپ نے سچ فرمایا ہے مگر اس کی کچھ تفصیل تو ارشاد فرمادیجئے۔ ماں نے کہا‘ بیٹا ! جب تم چھوٹے تھے‘ میں نے تمہیں کبھی بھی بے وضو دودھ نہیں پلایا تھا‘ یہ اس کی برکت ہے کہ اللہ نے تمہارے ہاتھوں پر لاکھوں انسانوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمادی ۔ آج ہم ایسی مائیں کہاں سے لائیں جو اپنی اولاد کو نیک بنانے کے لئے اس طرح کا اہتمام کیا کرے۔ ہم نے ملت کی ان دوشیزاؤں کو بھی فراموش کردیا جو چنگیز خان کی بربریت کے باعث اپنا دامن عفت نہیں بچا پائی تھی۔ تاتاریوں نے مسلم مملک کو تباہ و تاراج کرنے کے بعد ملت کی باعصمت بیٹیوں کو اپنے حرم میں بیویوں اور باندیوں کے طور پر داخل کرلیا تھا۔ ان دختران ملت نے مایوس کن حالات کے باوجود بھی اپنے فرض منصبی کو فراموش نہیں کیا۔ ان بی بیوں نے حالات کی نزاکت کو سمجھ کر اپنے آقاؤں کے ساتھ حسن سلوک کا ایسا مظاہرہ کیا کہ وہ ان سے خوش رہنے لگے اور انہیں اپنے گھر میں آزادانہ زندگی گذارنے کا موقع فراہم کردیا جس کو غنیمت جان کرغیرت مند بنات حرم نے تاتاریوں کی نسل کی ایسی پرورش کی کہ دوسری ہی نسل آغوش اسلام میں آگئی اور وہی سفاک قوم جن کے اجداد نے اسلام کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا اسلام کی ترویج کا سبب بنی۔ افسوس کہ آج صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ہماری بیٹیوں پر ایسی کوئی افتاد آن نہیں پڑی ہے مگر اپنی مرضی سے اپنی عفت کو چاک کرنے پر آمادہ ہے اور نہ صرف اپنا ایمان کھورہی ہیں بلکہ اپنے بطن سے مشرکوں کو پیدا کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔
- Advertisement -
- Advertisement -

Back to Conversion Tool