Sunday, June 8, 2025
Homeٹرینڈنگمجلس ونچت بہوجن اگھاڑی اتحاد سے مہاراشٹرا میں بی جے پی کو...

مجلس ونچت بہوجن اگھاڑی اتحاد سے مہاراشٹرا میں بی جے پی کو فائدہ

- Advertisement -
- Advertisement -

ممبئی ۔ لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ بی جے پی کو حکومت سے بے دخل کرنا اور نریندر مودی کو اقتدار کی کرسی سے نیچے اتارناجس کے لئے مختلف ریاستوں میں مختلف جماعتوں نے سیاسی اتحاد بنایا لیکن ان کی حکمت عملی میں کئی ایسی خامیاں تھی جس کا راست فائدہ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کوہوا ۔ مسلم اور دلت اتحاد کو اہمیت دی گئی تھی لیکن مہاراشٹرا میں یہ ہی مسلم دلت اتحاد کی کوشش نے ان کے ووٹوں کو ہی تقسیم کردیا اور اسکا راست فائدہ بی جے پی کوہواہے

 ریاست مہاراشٹرا میں ونچت بہوجن اگھاڑی کے امیدواروں نے این ڈی اے امیدواروں کو خوب فائدہ پہنچایا ہے اور ونچت بہوجن اگھاڑی کے امیدوار ووٹ کٹوا ثابت ہوئے ہیں جس کے سبب مہاراشٹرا میں بی جے پی اور شیو سینا کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے۔مارچ 2018 میں قائم کی گئی ونچت بہوجن اگھاڑی نامی سیاسی جماعت اور مجلس نے ریاست مہاراشٹرا کی 48نشستوں پر انتخابات لڑا جس میں صرف اورنگ آباد حلقہ لوک سبھا سے مجلس اور ونچت بہوجن اگھاڑی کے مشترکہ امیدوار امتیاز جلیل کوکامیابی حاصل ہوئی جبکہ پارٹی قائم کرنے والے پرکاش امبیڈکر جنہوں نے دو نشستوں سے مقابلہ کیا تھا دونوں سے ناکام ہوگئے ۔

 ونچت بہوجن اگھاڑی کے نام سے شروع کی گئی اس سےاسی جماعت سے مجلس کے علاوہ مہاراشٹر ا کی زائد از100 دلتوں اور پسماندہ طبقات کی تنظیموں نے تائید کا اعلان کیا تھا اور اب جب انتخابی نتائج سامنے آئے ہیں اس سے یہ اندازہ ہورہاہے کہ ونچت بہوجن اگھاڑی نے دلت اور مجلس نے مسلم ووٹوں کو منقسم کردیا ہے جس کے نتیجہ میں مہاراشٹرا میں بی جے پی اور شیو سینا اتحاد کوغیر معمولی کامیابی حا صل ہوئی ہے۔ریاست مہاراشٹر ا میں لوک سبھا کی جملہ نشستوں پر ونچت بہوجن اگھاڑی اور مجلس کے اتحاد نے 40 لاکھ 13ہزار ووٹ حاصل کئے لیکن اتحاد کو صرف ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

مشہور انگریزی اخبار نے اپنے تجزیہ سے ثابت کردیا کہ اور اس نے مہاراشٹرا انتخابات کے دوران ایسی 9 نشستوں کی نشاندہی کی جہاں سیکولر امیدوارو ں کی کامیابی یقینی تھی اگر ونچت بہوجن اگھاڑی کے امیدوار نہیں ہوتے تو انہیں کامیابی حاصل ہوسکتی تھی اور زعفرانی سیاسی جماعتوں کے امیدوارو ں کو شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔سابق چیف منسٹر سشیل کمار شنڈے کوان کے حلقہ لوک سبھا شولا پور سے ایک لاکھ 56ہزارووٹوں سے بی جے پی کے امیدوار نے شکست دی جہاں ونچت بہوجن اگھاڑی کے امیدوار نے 1لاکھ 68 ہزار 694 ووٹ حاصل کرلئے اسی طرح حلقہ لوک سبھا پربھنی سے حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ونچت بہوجن اگھاڑی کے امیدوار نے این سی پی امیدوار راجےش ویٹیکر کی شکست کی راہ ہموار کی جہاں 42 ہزار189 سے انہیں شکست ہوئی اور ونچت بہوجن اگھاڑی نے 1لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرلئے ۔

بتایاجاتا ہے کہ اگھاڑی ۔ مجلس اتحاد نے صرف اورنگ آباد کی نشست پرکامیابی حاصل کی لیکن مرہٹواڑہ میں ناندیڑ ‘ عثمان آباد اور پربھنی ‘ودربھا میں اکولا اورگڈچرولی ، مغربی مہاراشٹرا میں شولا پور، ہتھکانانگلے اور دیگر نشستوں پر این سی پی اورکانگریس اتحاد کے امیدواروں کو نقصان پہنچایا ہے ۔مہاراشٹرا لوک سبھا انتخابات کے دوران جو صورتحال پیدا ہوئی تھی اس وقت ہی یہ کہا جا رہاتھا کہ ریاست مہاراشٹرا میں جہاں دلتوں کی بڑی تعداد برسر اقتدار بی جے پی سے ناراض ہے اور مسلمان بی جے پی کو ووٹ ہی نہیں دیتے تو اےسی صورت میں ان ووٹوں کی تقسیم کو کس طرح یقینی بنایا جائے اور اس مقصد کے لئے جو منصوبہ بندی کی گئی اس کے برسراقتدار زعفرانی جماعتوں کے حق میں بہترین نتائج برآمد ہوئے ہیں اور ملک کی پارلیمنٹ میں داخلہ سے سیکولر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو روکنے میں انہیں کامیابی حاصل ہوچکی ہے۔

گڈچرولی حلقہ لوک سبھا میں کانگریس امیدوار کو بی جے پی کے امیدوار نے 76ہزار 694 ووٹوں سے شکست دی ہے جبکہ اس حلقہ سے ونچت بہوجن اگھاڑی کے امیدوار نے1لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے ہیں جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کس طرح سے کی گئی ہے اور کس منظم طریقہ سے مسلم اور دلت ووٹوں کو بھی غیر اہم کردیاگیا ۔