Tuesday, April 22, 2025
Homesliderمرکزی حکومت ماحولیاتی اثرات کی تشخیص (ای آئی اے) کو نافذ نہ...

مرکزی حکومت ماحولیاتی اثرات کی تشخیص (ای آئی اے) کو نافذ نہ کرے

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی: سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے قومی صدر ایم کے فیضی نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے اگر ماحولیاتی اثرات کی تشخیص (ای آئی اے) نوٹیفکیشن 2020کو نافذ کیا گیا تو اس سے ملک کا ماحولیاتی نظام اور ماحول غیر مستحکم ہوجائے گا۔ ایم کے فیضی نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ متعلقین کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور مشورے دینے کا موقع فراہم کئے بغیر اس کو نافذ نہ کرے۔

ماحولیاتی اثرات کی تشخیص (ای آئی اے) کانوں سمیت مختلف منصوبوں کیلئے لازمی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے منصوبے جیسے سڑکیں، شاہراہیں، بندر گاہیں اور ہوائی اڈے، تھرمل پاور پلانٹس، ڈیم اور صنعتیں جیسے الیکٹرو پلیٹنگ اور فاؤنڈری یونٹ کیلئے بھی ای آئی اے لازمی ہے۔ ای آئی اے کو سب سے پہلے 1978میں نافذ کیا گیا تھا اور ای آئی اے میں معمولی اپ ڈیٹس کیا گیا تھا اور تازہ ترین ترمیم 2006میں منظور کی گئی تھی۔ وزرات ماحولیات، جنگلات اور موسمی تبدیلی نے اب 2006کے نوٹیفکیشن میں ترمیم کی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد اس عمل میں موجود پابندیوں کو ختم کرنا ہے جس کے نتیجے میں سنگین ماحولیاتی مسائل پیدا ہونگے۔ اس نوٹیفکیشن کو 23مارچ2020کو ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے موقع پر ہی جاری کیا گیا، بغیر کسی زیادہ تشہیر کے اسے صرف ویب سائٹ پر اپ لو ڈ کیا گیا تھا۔

یہ ریو ڈکلیریشن کے اصول 10اور فطری انصاف کے اصول کی صریح خلاف ورزی ہے۔ نوٹیفکیشن میں تجویز کردہ بڑی ترامیم یہ ہیں۔1)۔ کمپنیوں کو لازمی طور پر عوامی سماعت کی ضرورت نہیں ہے۔2)۔کمپنیوں کو ہر چھ ماہ بعد تعمیل رپورٹ پیش کرنے کے بجائے سالانہ رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔ 3)۔ عوامی سماعتوں کے دوران عوامی ردعمل پیش کرنے کیلئے فراہم کردہ وقت کو تیس دن سے بیس دن کردیا گیا ہے۔ عوامی سماعت کا عمل 45دن کی بجائے 40دن میں مکمل کرنا ہے۔ اس تجویز سے کمپنیوں کو لوگوں یا ماحولیاتی تنظیموں کی منظوری کے بغیر منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کا اہل بناتا ہے۔

اس سے یقینی طور پر لوگوں کو بڑے پیمانے پر بے گھر ہونا پڑے گا اور نا قابل تنسیخ ماحولیاتی نقصان ہوگا۔ حکومت کو متاثرہ لوگوں کی شمولیت کے بغیر فیصلے لینے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔ پہلی ترمیم کی اس چھوٹ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں میں ایسی کیمیائی صنعتیں شامل ہی جو تیزاب، پینٹ، کھاد وغیرہ پیدا کرتی ہیں اور یہ کمپنیاں زہریلے فضلے کو باہر نکالتی ہیں جو آس پاس کے علاقوں کیلئے نقصاندہ ہے۔ یہ فضلہ آبی وسائل، ہوا کے معیاراور مٹی کے معیار کو آلودہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔ دوسری ترمیم میں تعمیل رپورٹ پیش کرنے کے وقت میں نرمی برتی گئی ہے اس سے کمپنیوں کو آسانی سے ان کی خامیوں کو چھپانے میں مدد ملتی ہے۔ یہ قدرتی وسائل کااستحصال کرنے والی کمپنیوں پر وزرات ماحولیات کی گرفت کو مزید کمزور کردے گی۔

آرے جنگل اور ویدانتا پرائیویٹ لمیٹڈجیسی جعلی رپورٹس کی پہلے سے ہی ثابت شدہ مثالیں موجود ہیں۔ نسبتا اس سے بھی زیادہ مضبوط شق ہونے کے باوجود تو تو گڈی واقعہ میں پولیس نے 13مظاہرین کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ تیسری تجویز میں ان لوگوں کواپنے خیالات، تبصرے اور تجاویز پیش کرنے کیلئے مناسب وقت دینے سے انکار کیا گیا ہے جو اس منصوبے سے متاثر ہونگے۔ ایسے اہمیت کے حامل عوامی سماعتوں کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ وقت میں کمی کا سب سے زیادہ ان علاقوں پر اثر پڑے گا جہاں معلومات آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔ ایس ڈی پی آئی قومی صدر ایم کے فیضی نے زور دیا ہے کہ کویڈ۔19 لاک ڈاؤن کی آڑ میں مرکزی حکومت کو مذکورہ ای آئی اے میں ترامیم پر عمل در آمد سے دست بردار ہونا چاہئے۔ ریو ڈکلریشن کے اصول 10اور قدرتی انصاف کے اصول کی تعمیل میں تمام متعلقین کو تبادلہ خیال اور فیصلہ سازی میں شامل ہونے کا فراہم کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا ماحولیات اور آنے والی نسلوں پر بہت تکلیف دہ اثر پڑسکتا ہے۔