Sunday, June 8, 2025
Homesliderمساجد میں کورونا ختم ہوگیا؟

مساجد میں کورونا ختم ہوگیا؟

جائے نمازیں بچھادی گئی ، سماجی فاصلہ ختم اورماسک کا استعمال ترک کردیا گیا

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ وبائی مرض کورونا کی وجہ سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے لیکر دیہاتوں تک کی زندگی میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں اور کورونا نے عبادت گاہوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔ کورونا کے آمد کے ساتھ ہی سب سے پہلے مساجد سے جائے نمازوں کو اٹھادیا گیا تھا جس کے بعد فرش پر نمازیں ادا کرنے کے علاوہ فرش کو روزآنہ سینیٹائز کیا جانے لگا  تھا لیکن اب اچانک شہر کی کئی مساجد میں نہ صرف دوبارہ جائے نمازیں بچھادی گئیں ہیں بلکہ صف بندیوں میں اختیار کیا جانے والاسماجی  فاصلہ بھی ختم  کردیا گیا ہے جس سے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسا کہ مساجد سے کورونا رخصت ہوچکا ہے۔

مارچ کے مہینے میں جب ہندوستان میں لاک ڈان ہوا تھا تب مساجد میں بھی عبادت کے طریقہ بھی متاثر ہوئے جیسا کہ جہاں نمازوں کےلئے صف بندی میں کاندھے سے کاندھا ملاکر کھڑا جاتا تھا وہیں کورونا کی وجہ مصلیوں کے درمیان ایک سے دیڑھ میٹر کا فاصلہ اختیار کیا جانے لگا جو دراصل کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کی جانے والی احتیاط تھی ۔ اس کے علاوہ مساجد میں کورونا سے پہلے جو شاندار اور قیمتی جائے نمازیں بچھائیں جاتی تھیں انہیں بھی ہٹادیا گیا تھا اور صرف فرش پر نماز ادا کرنے کے علاوہ روزآنہ فرش کو سینیٹائز کیا جارہاتھا لیکن حالیہ دنوں میں شہر کی کچھ مساجد میں نہ صرف جائے نمازیں دوبارہ بجھادیں گئیں بلکہ صف بندی کے لئے جو سماجی فاصلہ اختیار کیا جارہا تھا اسے بھی کم یا بالکل ختم  کردیا گیا ہے۔

مساجد میں جائے نمازوں کے دوبارہ بچھادینے کے بعد تین اہم  سوالات ذہن میں ابھرنے لگے  ہیں۔

1۔ کیا مساجد سے کورونا ختم ہوگیا ہے؟

2۔ کیا مساجد میں آنے والا ہر مصلی کورونا سے محفوظ ہوچکا ہے؟

3۔ جو جائے نمازیں مساجد میں دوبارہ بچھا دی گئیں ہیں کیا وہ کورونا وائرس سے صدفیصد پاک ہیں اور کیا وہ استعمال کے دوران دوبارہ وائرس سے متاثر نہیں ہوگی ؟

جائے نمازوں کو دوبارہ بچھادینے کے ضمن میں انتظامیہ اور دیگر حکام کا کہناہے کہ چونکہ سردیوں کا موسم شروع ہوچکا ہے اور فرش ٹھنڈا ہوتا ہے لہذا سرد موسم میں ٹھنڈے پتھروں پر نماز پڑھنا آسان نہیں ہے اس لئے  جائے نمازیں دوبارہ بچھادی گئیں ہیں۔

یہ جواب کسی حد تک معقول بھی لگتا ہے لیکن کچھ خدشات ہنوز موجود ہیں جیسا کہ مان لیا جائے کہ سردی سے بچاؤ کےلئے جائے نمازیں بچھادی گئیں ہیں یہاں تک ٹھیک ہے لیکن صف بندی میں جو فاصلہ جائے نمازوں کے بچھانے سے قبل اختیار کیا جارہا تھا وہ کیوں ختم کردیا گیا ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے جب مساجد میں 100 سے زیادہ مصلیوں کی بیک وقت نماز ادا کرنے کی آسان گنجائش موجود ہے تو پھر پنچگانہ نمازوں میں جو درجن بھر مصلی موجود رہتے ہیں ان میں صف بندی کے دوران زیادہ  فاصلہ کیوں نہیں رکھا جارہا ہے۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ جائے نمازوں کو بچھانے کے بعد ان کی صفائی اور سینیٹائزینگ کا کیا طریقہ کار اختیار کیا جارہا ہے ۔ کورونا کے اس بحران کے دور میں جائے نمازوں پر روایتی انداز میں صرف جھاڑو ماردینا کیا  کافی ہے؟ چوتھا سوال یہ ہے اگر کوئی مصلی  عام سردی ،کھانسی سے  بھی متاثر ہے اور جائے نمازکی کسی حصہ کو متاثر کرتا ہے تو کیا اس انفکشن سے  دوسرے مصلی متاثر نہیں ہوں گے ؟اور خدا نخواستہ اگر کوئی کورونا سے ہی متاثر مصلی جائے نماز کی کسی حصہ کو متاثر کرتا ہے تو صحت مند مصلیوں کو محفوظ رکھنے کا کیا طریقہ کار ہوگا؟

یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات شاید مساجد کےانتظامیہ کے پاس بھی نہیں ہیں ۔سردیوں سے حفاظت کےلئے مساجد میں جائے نمازوں کو بچھانے کے ساتھ کچھ احتیاطی تدابیر کو جو نظر انداز کیا جارہا ہے وہ نہ صرف مساجد کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ کرنے آنے والوں کےلئے خطرہ کی گھنٹی ہے بلکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔

جائے نمازوں کو بچھانے کے بعد مصلیوں کے درمیان کم از کم ایک سے دیڑھ میٹر کا فاصلہ ( جو لاک ڈاؤن کے وقت اختیار کیا جاتا تھا ) اسے برقرار رکھنے ،چہرہ کا ماسک استعمال کرنے  ،مسجد کی جائے نماز پر اپنی انفرادی جائے نمازبچھانے جیسے احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا وقت کا تقاضہ ہے تاکہ عباتوں گاہوں کو کورونا وائرس کے پھیلنے کا مراکز میں تبدیل ہونے سے بچانے کے علاوہ مسلم دشمن میڈیا کو کوئی موقع نہ دیا جاسکے ۔دیکھا جارہا ہے کہ جہاں اکثر مساجد میں جائے نمازیں  بچھانے کےلئے علاوہ سماجی فاصلہ ختم کردیا گیا اور تو اور ماسک کا استعمال ایسے ترک کردیا گیا ہے جیسا کہ کورونا نے انہیں خاص پیغام روانہ کیا ہے اور کہا ہے اب وہ ان کو متاثر نہیں کرے گا۔یاد رکھیں کورونا ابھی ختم نہیں ہوا ہے لہذا آپ کو اپنی اور اپنے افراد خاندان کی حفاظت کرنی ہے۔

حذیفہ ارقم