یہ سوشل میڈیا کا موضوع نہیں نسلوں کی بقاءکا سوال ہے
حیدرآباد ۔ صحافیوں کے واٹس اپ گروپس میں آج صبح سے ایک خبر جو کہ مسلم لڑکی کی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کے متعلق ہے ، کافی گرما گرم بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے ۔ صحافیوں کے علاوہ عام زمرے کے واٹس اپ گروپس میں بھی اس موضوع کو اہمیت دی جارہی ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کررہا ہے جبکہ اکثریت نے اس پر برہمی اور افسوس کا اظہار کیا جو یقینا مسلمانوں کے ایمانی حرارت کا ایک مظاہرہ ہے ۔سب سے پہلے تو جو خبر واٹس گروپس میں گشت رہی ہے اس کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ چارمینار سب رجسٹر حیدرآباد کے میرج آفیسر کو جو درخواست دی گئی ہے اس میں سروا گنگا پرساد ،عمر 35 سال، مقیم سلطان شاہی ، پیشہ سافٹ ویر ملازم ، نے 26 سالہ سافٹ ویر ملازمہ ،نیلوفر شمع بنت محمد شعیب مقیم سبھاش سنگر وشاکاپٹنم نے شادی کی تفصیلات فراہم کی ہیں اور اس کا نوٹس کا نمبر 03/sm/2019 ہے۔
غیر مسلم لڑکوں سے مسلم لڑکی کی شادی کا یہ موضوع صبح سے ہی واٹس ایپ گروپس اور شوشل میڈیا پر گرما گرم ہے جس میں ہر کوئی ناصرف برہمی کا اظہار کررہا ہے بلکہ مسلم لڑکی کو برا بھلا بھی کہہ رہا ہے لیکن چند گھنٹوں کے بعد ہم اس مسئلے پر اظہار خیال کو پس پشت ڈال کرکس ہوٹل میں حلیم مزے دار ہے اور کس مال میں عید کی شاپنگ پر کتنا ڈسکاؤنٹ مل رہے جیسی بحثوں میں مصروف ہوجاتے ہیں لیکن جو مسئلہ مسلم سماج کو دیمک کی طرح کھوکھلا کررہا ہے اس کے مستقل حل کی سمت اپنی ادنیٰ سے کوشش بھی نہیں کرتے۔
مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی آج مسلم سماج کا ایک تشویش ترین اور سنگین مسئلہ ہے لیکن اس پر وقتی برہمی اور ناراضگی ظاہر کرنے کی بجائے ان بنیادی وجوہات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری بہن اور بیٹیاں غیروں کے ساتھ شادی کرتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت برباد کرنے سے بچ جائیں اور ہماری نئی نسلوں تک ایمان و یقین کی بات پہنچ سکے ۔اس مسئلہ کی بنیادی تین وجوہات نظر آتی ہیں ۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ بچوں اور خاص کر کے بچیوں کی تربیت میں بچپن سے ہی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہم بچیوں اور معصوم بچوں کی پرورش میں غیروں کے طریقے اختیار کرتے ہیں جس میں سالگرہ منانا سر فہرست ہے اسلام نے عقیقہ کرنے کی ہدایت دی ہے ہم اسے بھلا کر برتھ ڈے پارٹی کو آج بچوں کی زندگی کا جز لازم بنالیا ہے۔ اس کے علاوہ بچیوں کو جینس اور ٹی شرٹ پہنانے کو غلط تصور ہی نہیں کیا جاتا حالانکہ حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ جو عورت مرد کا لباس زیب تن کرتی ہے اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت ہے اور جب بچپن میں کسی بچی پر اللہ کے رسول کی لعنت ہو تو پھر کس طرح اس کی دنیا آخرت سنور سکتی ہے اور اس کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے ۔ اگر اس طرف توجہ دلائی جائے تو کہا جائے جاتا ہے ابھی تو بچی ہے نا ۔۔۔لیکن ہم اس حقیقت سے منہ موڑنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پودا کو زیادہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی کیونکہ جب پودا طاقتور درخت کی شکل اختیار کرلیتاہے تو پھر وہ موسم کی سختیوں کو آسانی سے برداشت کرلیتا ہے اسطرح اگر ہماری بچیوں کو بچپن میں ہی اسلامی طرز پر پروارش کردی جائے تو بڑے ہونے کے بعد ان پر ماحول کا اثر ہونے کا خدشہ کم ہوتا ہے۔لہذا سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی بچیوں کی بچپن سے ہی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کریں۔
دوسری اہم وجہ مخلوط تعلیمی ماحول اورملازمتوں کے لیے بچیوں کو چھوٹ دینا ہے ۔ ملازمت صرف مجبوری کی حالت میں کی جائے تو اس فتنہ انگیز دور میں کافی ہے کیونکہ اکثر دیکھا جارہا ہے کہ بچیوں کو انجینئرنگ اور دیگر اعلی ٰ تعلیم کی ڈگری حاصل ہونے کے بعد گھر پر بیٹھ کر خالی وقت گزارنے کی بجائے ملازمت کرنے کا رجحان بھی مسلم سماج میں بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے ملازمت کے دوران کسی غیر کی محبت میں گرفتار ہونے کی وجہ سے بھی مسلم بچیوں کی غیروں کے ساتھ شادیوں کا مزاج بڑھ رہا ہے۔لہذا ضروری ہے کہ جہاں ملازمت مجبوری ہو وہاں بھی اپنی بہن اور بیٹیوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کی جلداز جلد نکاح کی فکر کی جائے ۔
تیسری اہم وجہ مسلم سماج میں ایک سے زائد نکاح کے رواج کو ختم کر دینا بھی ہے کیونکہ ہمارے سماج میں اگر کوئی مسلم مرد ایک سے زائد نکاح کرتا ہے تو اس پر لعن طعن کی جاتی ہے حالانکہ اسلام نے ایک سے زائد شادی کو سماج کو برائیوں سے پاک رکھنے کے لیے ایک تحفہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہماری مسلم لڑکیاں غیروں کے ساتھ شادی کرتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت برباد کرنے کی بجائے کسی مسلم صالح مرد کی دوسری بیوی بنتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت کے ساتھ آنے والی نسلوں کا ایمان بھی باقی رکھ سکے لیکن آج ہندوستان میں کیونکہ مسلمان صدیوں سے غیروں کے رسم و رواج کے عادی ہو چکے ہیں لہذا انہیں جب ان سے دوسرے نکاح کی بات کی جاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسا کہ کسی بہت ہی بڑی برائی کا تذکرہ ان کے سامنے کر دیا گیا ہو۔
صرف اگر حیدرآباد کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو اتوار کو شائع ہونے والے اردو اخبارات میں ضرورت رشتہ کے اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم معاشرے میں نکاح مشکل ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ایسی لڑکیاں جن کا ایمان پختہ نہیں اور ان کی تربیت اسلامی ماحول میں نہیں ہوئی ہے وہ غیروں کے دامن میں اپنا مستقبل تلاش کر رہی ہیں اور آسانی سے اس فتنہ کا شکار بھی ہورہی ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے موضوعات پر صرف سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی برہمی اور خیالات کا اظہار کرنے کے بجائے ہمیں اپنے اپنے گھروں اور بچیوں کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں اسلامی ماحول میں تربیت دینے کے علاوہ ہر اس حکم کو ماننے میں پہل کریں جو بظاہر سماج اور ہماری نظروں میں مشکل دکھائی دیتا ہے لیکن وہ ہوتا ہمارے دونوں جہاں کے فائدے کے لئے ہے۔ اسلام ایک فطری مذہب ہے اور اس کا ہر حکم انسانی سماج کو برائیوں اور نقصانات سے بچانے کے لئے ہی بنایا گیا ہے۔