اطہر معین
انسان خواہشات کا اسیر ہے۔ ایک دور تھا کہ ساری دنیا کے انسانوں کو چراغ کی روشنی ہی کافی تھی ۔ اسی روشنی میں امرائے سلطنت ‘مملکتی امور انجام دیا کرتے تھے مگر آج کے شہری انسان کا برقی کے بغیر ایک گھنٹہ گذارنا محال ہوگیا ہے۔ ایک دور تھا کہ نئی ایجادات بنی نوع انسانی کی فلاح و بہبود کے لئے کی جاتی تھیں تاکہ اسے محنت و مشقت کم کرنی پڑے اور اس کا بوجھ مشینوں پر لاد دیا جائے اور وہ سکون سے اپنی زندگی بسر کرسکے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ نئی ایجادات کا مقصد انسان کو راحت پہنچانا کم اور اسے معاشرتی طرز زندگی سے حیوانیت کی جانب لے جانا زیادہ ہے۔ جب تک کمپوٹر کی ایجاد نہیں ہوئی تھی ‘ ہماریّ زندگی کے سارے کام انجام پاتے تھے اور آج یہ صورتحال ہے کہ کسی دفتر میں آتشزنی ہوجائے اور کمپوٹرس بھی اس کی زد میں آجائیں تو دفتر کا سارا کام کاج ٹھپ ہوجاتا ہے۔ انٹر نیٹ کی ایجاد سے قبل ہم دستیاب ذرائع ترسیل کو اختیار کرتے ہوئے اپنوں سے رابطہ میں رہا کرتے تھے مگر جب سے انٹر نیٹ اور اس کے حامل اطلاقات کی ایجادات ہوئی ہیں ہم اپنوں کے ساتھ اجنبیوں سے بھی رابطہ میں آگئے ہیں اور ان اجنبیوں سے انٹرنیٹ کے وسیلہ سے اتنے آشنا ہوچکے ہوتے ہیں کہ ان کے قریبی رشتہ دار حتیٰ کہ بعض اوقات شریک حیات بھی واقف نہیں ہوتے۔ یہ سچ ہے کہ انٹر نیٹ کے ذریعہ ہم دنیا کے کسی بھی خطہ میں رہتے ہوئے کسی سے بھی کسی پہر رابطہ قائم کرسکتے ہیں۔ بے شک اس سہولت کاجائز مقاصد کے لئے استعمال کرنا سود مند ہے مگر اس کا تاریک پہلو یہ ہے کہ انٹر نیٹ کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہماری نئی نسل تباہی کے دہانہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ آج معاشرہ میں بگاڑ کا سب سے موثر اور بدترین وسیلہ انٹر نیٹ ہی ہے۔ انٹر نیٹ کے ذریعہ جتنی گمراہیاں اور برائیاں پھیلائی جارہی ہیں شائد ہی کسی اور ذریعہ سے اتنا بگاڑ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ذریعہ نہ صرف اخلاقی بگاڑ پیدا ہورہا ہے بلکہ یہود و نصاریٰ انٹر نیٹ کو اسلام اور مسلمانوں پر حملہ کے لئے سب سے موثر اور کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق اسلام‘ قرآن مجید اور احادیث کے موضوعات پر ایک لاکھ سے زائد ویب سائٹس ہیں جن کے بیشتر نگران کار یہود و نصاریٰ ہیں۔ ان ویب سائٹس کے ذریعہ صرف اسلام سے متعلق غلط معلومات پہنچائی جارہی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہوئے مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہماری نوجوان تعلیم یافتہ نسل انٹر نیٹ کی رسیا بن گئی ہے۔ جب وہ ایک مرتبہ کمپوٹر سے اپنا ناطہ جوڑلیتے ہیں تو انہیں بھوک کا بھی احساس نہیں ہوتا اور گھنٹوں اپنا وقت ضائع کردیتے ہیں اور فضول مباحث میں پڑ کر اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں ۔ انٹر نیٹ کے توسط سے اجنبیوں سے رابطے قائم کرنے اور اپنی دوستیاں بڑھانے کے لئے سوشیل نٹ ورکنگ کا جو جال پھیلایا گیا ہے اس کے اثرات انسانی زندگی پر اس قدر پڑنے لگے ہیں کہ فرد کی نجی زندگی کے تاریک پہلو بھی طشت از بام ہونے لگے ہیں۔ سوشیل نٹ ورکنگ جیسے فیس بک‘ آرکوٹ‘ ٹوئٹر‘ مائی اسپیس اور لنکے ڈین وغیرہ سے جڑے رہتے ہوئے ایک فرد اپنی نجی زندگی کے ان پہلوؤں کو بھی منظر عام پر لے آتا ہے جن پر وہ زندگی بھر پردے ڈالے رہا تھا۔ سوشیل نٹ ورکنگ کے ذریعہ ایک مخصوص گروہ منصوبہ بند انداز میں مخصوص افکار و نظریات کو عام کررہا ہے بلکہ رائے عامہ کو ہموار کررہا ہے۔ ایک لابی ہے جو ان سہولتوں سے استفادہ کرتے ہوئے ساری دنیا کے لوگوں کو ایک مخصوص ذہن دے رہی ہے۔ ہم ان مقاصد سے بے بہرہ رہتے ہوئے رو میں بہہ کر سازشوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سوشیل نٹ ورکنگ کا اصل مقصد یہی ہے کہ اس سے جڑے لوگوں کا ذہن پڑھتے ہوئے انہیں ایک مخصوص راہ پر ڈالا جائے۔ اس کے ذریعہ زندگی کے اہم امور پر نہ صرف لوگوں کے افکار و نظریات سے واقفیت حاصل کی جاتی ہے بلکہ انہیں ایک طرح سے کنٹرول بھی کیا جاتا ہے۔ اسی سوشیل نٹ ورکنگ پر اپنے دل کی باتیں پیش کرنے کا خمیازہ ہندستان کے ایک وفاقی وزیر کو اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں کہ سوشیل نٹ ورک پر دی گئیں تصاویر اور پیامات کا غلط استعمال کرتے ہوئے بلیک میل کیا گیا اور کئی لوگوں کی زندگی میں زہر گھولا گیا۔ سوشیل نٹ ورکنگ کے ذریعہ کسی سے بھی رابطہ قائم کرلینا اب مشکل نہیں رہا ہے۔ اس کے ذریعہ آپ کو کسی فرد کا سیل فون نمبر اور ای میل اڈریس معلوم کرنا مشکل نہیں ہے۔ اب ایسا بھی ہونے لگا ہے کہ ہماری بچیوں کو روزانہ نئے نئے لوگوں سے متعارف ہونے اور ان سے باتیں کرتے ہوئے دوستی بڑھانے کا شوق چرایا ہے ۔ سوشیل نٹ ورکنگ کے بعد فون پر رابطہ اور پھر ملاقاتوں کا سلسلہ چل پڑتا ہے اور اس میں بہک کر ہماری بیٹیاں اپنی دوشیزگی کھورہی ہیں۔ مجھے یہ انکشاف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہورہا ہے کہ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بھی بن بیاہی مائیں بننے لگی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ عزت و ناموس کی خاطر حمل ضائع کردیا جاتا ہے۔ اب تو اس کی وجہ سے ایک فرد کی ازدواجی زندگی میں بھی تلخیاں پیدا ہونے لگی ہیں‘ شر پسندوں کی جانب سے کسی فرد کی زندگی کے نجی پہلوؤں کو آشکار کرتے ہوئے عزتوں سے کھلواڑ کیا جانے لگا ہے۔ انٹر نیٹ کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ ویب کیمروں کے ذریعہ فحاشی کو پھیلایاجانے لگا ہے۔ انٹر نیٹ کیفے ایک معنوں میں فحاشی کے اڈوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہمارے نوجوان اپنی جنسی تسکین کے لئے انٹر نیٹ پارلرس کو استعمال کرنے لگے ہیں اور ان پارلرس کے کیبنس کا گھنٹوں کے حساب سے کرایہ ادا کرتے ہوئے اخلاق کی تمام حدوں کو پار کرنے لگے ہیں۔ ایسے بھی کئی واقعات پیش آچکے ہیں کہ بعض لالچی اور بدقماش قسم کے مالکین انٹرنیٹ پارلرس ‘ کیبنس میں خفیہ سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرتے ہوئے نوجوان جوڑوں کی حیا سوز حرکتوں کی فلم بندی کرلیتے ہیں اور ان کے ذریعہ بلیک میل کرتے ہوئے موٹی موٹی رقم وصول کرتے ہیں‘ کچھ تو ان ویڈیو کلپنگس کو اپنے دوستوں میں عام کرتے ہیں یا پھر ان کو ایم ایم ایس اور یو ٹیوب پر پوسٹ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے لڑکیوں کی عصمت سے بھی کھیل جاتے ہیں۔ کالجوں کو جانے کے بہانے ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھنٹوں ان انٹر نیٹ پارلرس پر وقت گذارنے لگے ہیں‘جہاں وہ ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈالے جوانی کے مزے لوٹتے ہیں اور ساتھ میں انٹر نیٹ پر فحش مناظر کا مشاہدہ کرتے ہوئے اپنی شہوانیت کی تسکین پاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نئی نسل انٹر نیٹ پر فحش مناظر کے مشاہدات اور اس کے بعد جنسی بے راہ روی کا شکار ہوکر اپنی جوانیاں برباد کررہی ہے۔
معاشرہ میں بگاڑ کا سب سے موثر اور بدترین وسیلہ انٹر نیٹ
- Advertisement -
- Advertisement -